پاکستان سپر لیگ، بورڈ کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج

2 1,169

عالمی چلن کے مطابق ایک لیگ کا انعقاد پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے سالوں سے 'ٹیڑھی کھیر' ثابت ہو رہا ہے۔ سابق چیئرمین ذکا اشرف تو دل میں ارمان لیے ہی چلے گئے لیکن 'پی ایس ایل' کے اونٹ کو کسی کروٹ پر بٹھا نہ سکے۔ اب جبکہ نئی انتظامیہ نے کسی نہ کسی طرح یہ کام کر ہی ڈالا ہے تو مسائل ہیں کہ مصیبت کی طرح اکیلے نہیں ہیں۔ سب سے پہلے لیگ کے انعقاد کا آسرا ہر سال دیا جاتا اور پھر موخر ہو جاتی یہاں تک کہ 2014ء میں تو معاملہ بولی کے عمل تک پہنچا لیکن صرف دو ادارے سامنے آئے اور یوں اس سال بھی لیگ موخر ہوگئی۔ 2015ء میں بالآخر کچھ معاملات بنے اور ٹیموں کی نیلامی، انتخاب اور دیگر مراحل طے ہوئے اور جیسے ہی پی ایس ایل حقیقت کا روپ دھارنے لگی، مسائل کھمبیوں کی طرح پیدا ہونا شروع ہوگئے۔

یہ امر حقیقت ہے کہ کسی بھی بہت بڑے کام کو کرنے میں ہمیشہ مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور بدخواہ کبھی نہیں چاہتے کہ آپ کسی مقصد کے حصول میں کامیاب ہوں لیکن درحقیقت اس میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی بھی کچھ سنگین غلطیاں ہیں۔ ایک تو یہ طے کرلینا ہے کہ لیگ بہرحال کسی تیسرے مقام پر کھیلی جائے گی، پہلے ہی قدم پر لیگ کو مشکلات میں ڈال سکتی ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے انعقاد کا فیصلہ اسی صورت ہونا چاہیے تھا جب یہ ملک کے بے رونق میدانوں میں کھیلی جاتی۔ جب متحدہ عرب امارات نے ماسٹرز چیمپئنز لیگ (ایم سی ایل) کی میزبانی حاصل کرلی تو پاکستان قطر کی منتیں کرتا رہا اور جب بالآخر معاملات امارات ہی سے طے ہوئے تو یہ ضمانت لینی چاہیے تھی کہ ایم سی ایل کی تاریخوں اور مقامات میں کوئی رد وبدل نہیں ہوگا لیکن اب ایک نئی مصیبت کھڑی ہو چکی ہے کہ ماضی کے بڑے ناموں پر مشتمل ایم سی ایل تقریباً انہی دنوں اور مقامات پر کھیلی جائے گی، جب پاکستان سپر لیگ کا انعقاد ہوگا۔ ماسٹرز چیمپئنز لیگ کی حتمی تاریخ 28 جنوری سے 13 فروری بتائی گئی ہے، جبکہ اسی دوران 4 فروری کو پاکستان سپر لیگ بھی شروع ہوگی۔ یعنی پاکستان کا ابتدائی ایک ہفتہ سے زیادہ کا وقت بری طرح متاثر ہوگا۔ ماسٹرز چیمپئنز لیگ کہیں بڑا منصوبہ ہے اور متحدہ عرب امارات کے کرکٹ حکام کو بہت زیادہ پیسہ دے رہا ہے۔ پاکستان نے قطر کو تو ہری جھنڈی دکھا دی، لیکن اب ایک نئی مصیبت مول لے لی ہے۔ امارات کے حکام بھی پریشان ہیں کہ پاکستان کے ساتھ دیرینہ و پرانے تعلقات کو دیکھیں یا اس بڑی "پارٹی" کو ناراض نہ کریں۔

PSL-Logo

ایک طرف یہ معاملہ ہے تو دوسری جانب منتخب کھلاڑیوں کی جانب سے درپیش پریشانیاں۔ کرس گیل کو بھی انہی ایام میں اپنی کمر کا آپریشن یاد آ رہا ہے، بنگلہ دیش کو بھی مستفیض الرحمٰن کا 'حد سے زیادہ استعمال' کھَل رہا ہے، ویسٹ انڈیز تو جیسن ہولڈر کو پاکستانی لیگ کے بجائے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کو ترجیح دینے کا حکم دے چکا ہے۔ یہی نہیں انگلینڈ کے متعدد کھلاڑی ایسے ہیں جو جنوبی افریقہ کے دورے کے لیے منتخب کرلیے گئے ہیں اور وہ بھی پاکستان سپر لیگ کے زیادہ تر مقابلوں میں شرکت نہیں کر پائیں گے۔ سری لنکا کا تو معاملہ ہی انوکھا ہے، ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ آخر سری لنکا کے کھلاڑیوں کو لینے میں فرنچائز کیوں ہچکچائیں، شاید انہیں پہلے ہی سے بتا دیا گیا تھا کہ وہ بھارت کے خلاف سیریز کو ترجیح دیں گے، اور لیگ نہیں کھیلیں گے۔ اچانک ان تمام واقعات کا ہونا کسی سمت اشارہ کرتا ہے، لیکن بہرحال، ہم سازشی نظریات کو پس پشت رکھتے ہیں۔

یہ بات تو بہرحال طے ہے کہ اتنے سنگین مسائل کے باوجود اگر پاکستان کرکٹ بورڈ ایک کامیاب لیگ کا انعقاد کر گیا، تو یہ بہت بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ لیکن یہ بھی ذہن میں واضح رہے کہ اگر پہلا تاثر ہی ناکام رہا تو آئندہ کے لیے بڑے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یہ مسائل کثیر جہتی ہیں جیسا کہ بہترین انتظامات کے ساتھ مقابلوں کا انعقاد، کھلاڑیوں کی تنخواہوں اور دیگر معاملات کا درست سمت میں چلنا، مقابلوں کے دوران فکسنگ کرنے والے عناصر پر کڑی نظر اور سبسے بڑھ کر کرکٹ شائقین کے لیے ایک یادگار تجربہ ہونا۔ ویسے اس وقت تو جوش و جذبہ عروج پر ہے لیکن ساتھ ہی کرکٹ کے سنجیدہ حلقو‍ں میں کافی تشویش ہے۔

خیر، ہر بڑے مقابلے سے قبل ایسا ہوتا ہے لیکن جیسے ہی پہلی گیند پھینکی جاتی ہے، سب پریشانی بھول جاتے ہیں اور کھیل کا لطف اٹھاتے ہیں۔ امید ہے کہ پاکستان سپر لیگ کے پہلے ایڈیشن میں ایسا ہی ہوگا۔