گیند باز چلے تو فیلڈنگ دھوکا دے گئی، بیٹسمین ناکام

1 1,069

نیوزی لینڈ کے خلاف تین ٹی ٹوئنٹی میچز پر مشتمل سیریز میں دو-ایک سے شکست کے بعد ایک روزہ کپتان اظہر علی کا اہم اور مثبت بیان سامنے آیا کہ ٹیم اس ہار کو بھلا کر میدان میں اترے گی۔ یقیناً یہ بیان شائقین کرکٹ کے لیے بہت حوصلہ افزا تھا مگر پہلے ہی ایک روزہ کے نتیجے نے ساری اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ہے کہ جہاں پاکستان کو 70 رنز سے شکست ہوئی ہے۔

ویلنگٹن کے میدان بیسن ریزرو میں ہونے والے اس مقابلے میں اظہر علی نے ٹاس جیت کر پہلے گیندبازی کا فیصلہ کیا۔ یعنی وہی غلطی جو فیصلہ کن ٹی ٹوئنٹی میں شاہد آفریدی نے کی تھی کہ ہدف کے تعاقب میں 'مشہور زمانہ" کمزوری کے باوجود اسی کا فیصلہ کیا۔ لیکن نیوزی لینڈ کی ابتدائی نصف اننگز میں پاکستانی گیندبازوں نے جیسی شاندار کارکردگی دکھائی، اس سے فیصلے پر تنقید کرنے والوں کو چپ گئی۔ 22.1 اوورز میں صرف 99 رنز پر چھ کھلاڑی آؤٹ۔ یہاں ایک غلطی، صرف ایک غلطی، نے مقابلے کا رخ ہی پلٹ دیا۔ محمد حفیظ نے ہنری نکلس کا کیچ چھوڑا، اس وقت جب وہ محض 4 رنز پر تھے لیکن اس کے بعد 82 رنز کی فیصلہ کن اننگز کھیل ڈالی۔

یعنی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نیوزی لینڈ کا نصف حصہ پاکستان کے نام رہا، اور باقی میزبان کے حق میں۔ ساتویں وکٹ پر مچل سینٹنر کے ساتھ نکلس کی 79 رنز کی شراکت داری نے نیوزی لینڈ کو بحران سے نکالا اور پاکستان کو ٹاس جیت کر پہلے گیند بازی کے فیصلے کے پورے ثمرات حاصل نہ کرنے دیے۔ 178 رنز پر سینٹنر کی اننگز محمد عرفان کے ہاتھوں مکمل ہوئی جنہوں نے 48 رنز بنائی۔ یوں امید کی ایک نئی کرن پیدا ہوئی۔ لیکن نکلس پاکستان کے لیے بدستور مشکلات کھڑی کر رہے تھے۔ میٹ ہنری کے ساتھ مل کر وہ مزید خطرناک روپ دھارتے، اس سے قبل ہی انور علی نے ان کو 82 رنز پر آؤٹ کردیا۔ یعنی انور علی کو وہی وکٹ مل تو گئی، جس پر انہی کی گیند پر حفیظ نے کیچ چھوڑا تھا، لیکن 78 رنز بعد۔

اس وقت نیوزی لینڈ 44.2 اوورز میں 8 وکٹوں پر 203 رنز پر کھڑا تھا، یعنی صرف دو اچھی گیندیں پاکستان کو بالادست مقام پر پہنچا دیتیں لیکن اگلے پانچ اوورز میں وہ کچھ ہوا جس کا کسی کو گمان تک نہ تھا۔ میٹ ہنری اور مچل میک کلیناگھن نے مجموعے کو 280 رنز تک پہنچا ڈالا۔ آخری اوور میں میک کلیناگھن انور علی کی گیند براہ راست آنکھ پر لگنے کی وجہ سے میدان سے باہر چلے گئے لیکن ان کی 18 گیندوں پر 31 رنز کی اننگز میچ کا نقشہ پلٹ چکی تھی۔ میٹ ہنری نے 30 گیندوں پر 48 رنز کی شاندار باری کھیلی جس میں 4 چھکے اور اتنے ہی چوکے شامل تھے۔ پاکستان کی جانب سے انور علی اور محمد عامر نے تین، تین جبکہ محمد عرفان نے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

بلے بازی میں پاکستان کے حال کو دیکھتے ہوئے یہ ہدف ہر گز آسان نہیں تھا۔ اگر تعاقب میں برقرار رہنا تھا تو ابتدائی بلے بازوں کا ذمہ دارانہ انداز میں کھیلنا ضروری تھا لیکن ایک مرتبہ پھر انہوں نے ایسا کرنے سے گویا انکار ہی کردیا۔ ایک تو سست روی سے آغاز پھر پے در پے دو وکٹیں گرنا پاکستان کو ابتدا میں سخت مشکلات سے دوچار کرگیا۔ 11 اوورز میں صرف 37 رنز اور اظہر علی اور احمد شہزاد دونوں آؤٹ۔ میک کلیناگھن کے زخمی ہونے کی وجہ سے باؤلنگ گرانٹ ایلیٹ نے سنبھالی اور دونوں ہی کو آؤٹ کرکے اپنا فرض ادا کردیا۔

دو وکٹیں گرنے کے بعد محمد حفیظ اور بابر اعظم نے سستی سے لیکن جم کر بلے بازی کی اور تیسری وکٹ پر 81 رنز کی رفاقت کے ذریعے مقابلے میں کسی حد تک جان ڈال دی۔ اس سے پہلے کہ یہ مزید خطرناک روپ دھار لیتی۔ کین ولیم سن نے خود قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور اپنے پہلے ہی اوور میں حفیظ کی اننگز کا خاتمہ کردیا۔ وہ 42 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ اور ان کے بعد بعد کوئی بھی بابر کا ساتھ نہیں دے سکا۔ صہیب مقصود ٹی ٹوئنٹی کی طرح یہاں بھی ناکام رہے اور محض 10 رنز بنانے کے بعد گرانٹ ایلیٹ کا تیسرا شکار بنے۔ یعنی پاکستان کے ابتدائی چاروں بلے باز جز وقتی باؤلرز کا نشانہ بنے۔

اس کے بعد وکٹیں گرنے کا سلسلہ آخر تک رکنے میں نہیں آیا۔ 168 رنز پر بابر اعظم کی 62 رنز کی اننگز تمام ہوئی اور محض دو رنز بعد مچل سینٹنر نے عماد وسیم کو آؤٹ کیا۔ سرفراز احمد اور انور علی نے کچھ مزاحمت کی لیکن سوائے اسکور کو 200 کا ہندسہ عبور کرانے کے کچھ اور نہ کرسکے۔ سرفراز نے 30 رنز بنائے اور ان کے آؤٹ ہوتے ہی پاکستان کی آخری تین وکٹیں صرف پانچ رنز پر گرگئیں۔ 210 رنز پر آؤٹ ہوتے ہی پاکستان کو 70 رنز کی بری شکست کا بوجھ اٹھانا پڑا۔

ٹرینٹ بولٹ نے سب سے زيادہ چار وکٹیں حاصل کیں لیکن یہ گرانٹ ایلیٹ کی ابتدائی تین وکٹیں تھیں جنہوں نے پاکستان کی بیٹنگ کی کمر توڑی۔ کوری اینڈرسن، مچل سینٹنر اور کین ولیم سن کے حصے میں ایک ایک وکٹ آئی۔

ابتدا ہی میں زندگی ملنے کے بعد فیصلہ کن اننگز کھیلنے والے ہنری نکلس کو میچ کے بہترین کھلاڑی اعزاز ملا۔

صرف تین ایک روزہ مقابلوں کی سیریز کا دوسرا میچ 28 جنوری کو نیپئر میں کھیلا جائے گا جہاں پاکستان کے بعد شکست کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔