"دھیما" آفریدی اور برق رفتار مصباح

4 1,438

کرکٹ میں ہر بلے باز کا ایک خاص انداز اور کھیلنے کا طریقہ ہوتا ہے۔ کوئی سست روی سے نہیں کھیل سکتا تو کسی کے لیے تیز بلے بازی مشکل ہی نہیں، ناممکن ہوتی ہے لیکن چند کھلاڑی ایسے باکمال ہوتے ہیں کہ مشکل صورت حال میں اپنے فطری انداز سے ہٹ کر ایسا کھیل پیش کردیتے ہیں کہ شائقین کرکٹ دنگ رہ جاتے ہیں۔

آئیے آپ کو چند ایسے بلے بازوں کے بارے میں بتاتے ہیں جنہوں نے ضرورت پڑنے پر اپنی فطرت کے خلاف جاتے ہوئے شاندار کارکردگی دکھائی اور دنیائے کرکٹ کو حیران کیا:

وریندر سہواگ

1910628HB114_Aus_in_WI

2008ء میں بھارت کے دورۂ آسٹریلیا میں چوتھا و آخری ٹیسٹ ایڈیلیڈ کے میدان پر کھیلا گیا۔ آسٹریلیا کو تین مقابلوں میں دو-ایک کی ناقابل شکست برتری حاصل تھی۔ بھارت کے پاس سیریز میں شکست سے بچنے کا یہ آخری موقع تھا۔ بھارتی کپتان انیل کمبلے نے ٹاس جیتا اور پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ بھارتی بلے بازوں نے 526 رنز جوڑ کر کپتان کے فیصلے کو درست ثابت کر دکھایا۔ لیکن آسٹریلیا اتنی آسانی سے ہار مارنے والا نہیں ہے۔ اس نے جواب میں 563 رنز داغ دیے۔

اب گیند دوبارہ بھارت کے 'کورٹ' میں تھی اور اس مرتبہ بلے بازوں پر بھاری ذمہ داری تھی، انہیں سنبھل کر کھیلنا تھا اور ذرا سی غلطی بھی آسٹریلیا کو مقابلے اور سیریز پر حاوی کر دیتی۔ یہاں پہلی اننگز میں 68 رنز بنانے والے وریندر سہواگ میدان میں اترے اور بھارت کو شکست سے بچانے کے لیے ایسی بلے بازی کی کہ دیکھنے والوں کو یقین ہی نہیں آیا کہ 'ویرو' ایسی بلے بازی بھی کر سکتے ہیں۔

انہوں نے 236 گیندوں پر 151 رنز بنا کر آسٹریلیا کو ایسا بے بس کیا کہ بھارت مقابلہ تو نہ جیت سکا لیکن بھارت کو تین-ایک کی ہزیمت سے بچا لیا ۔ سہواگ کی یہ اننگز کتنی قیمتی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہےکہ دوسری اننگز میں سچن تنڈولکر، سارو گانگلی، راہول ڈریوڈ اور وی وی ایس لکشمن یعنی 'پانچ مہان' کے دیگر چار کھلاڑی مکمل طور پر ناکام ہوئے اور کوئی بھی 20 سے زیادہ رنز نہ بنا سکا۔ ایسی صورت حال میں سہواگ بھی آؤٹ ہو جاتے تو بھارت کی شکست یقینی تھی۔

ہاشم آملا

1910628HB114_Aus_in_WI

ہاشم آملا کتنے بڑے کھلاڑی ہیں، یہ بتانے کی شاید ضرورت نہیں کیونکہ ان کے اعداد و شمار ہی اس کے لیے کافی ہیں۔ لیکن آملا کو اس مقام تک پہنچنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی۔ 2004ء میں ٹیسٹ کرکٹ کے آغاز کے بعد ان کی کارکردگی میں بتدریج نکھار آیا لیکن اس کے باوجود سلیکٹرز انہیں ایک روزہ میں آزمانے کو تیار نہیں تھا کیونکہ انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ ٹیسٹ کی طرح محدود اوورز کی کرکٹ میں بھی کارکردگی پیش کر سکیں گے۔

لیکن جب ہاشم آملا کو موقع ملا تو انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک روزہ کرکٹ میں ان کی کارکردگی کیسی ہے، یہی کافی ہے کہ وہ سب سے کم اننگز میں دو ہزار، تین ہزار، چار ہزار، پانچ ہزار اور چھ ہزار رنز بنانے کے عالمی ریکارڈ رکھتے ہیں۔ 126 ایک روزہ مقابلوں میں ان کا اوسط 52.73 ہے اور وہ اب تک 6273 بنا چکے ہیں۔ 21 سنچریاں اور 28 نصف سنچریاں بھی ان کے دامن میں ہیں۔ اب تو ایک روزہ میں تیز رفتار بلے بازی اور ٹیسٹ میں سنجیدگی سے سر جھکا کر کھیلنا ان کا طرّۂ امتیاز بن چکا ہے لیکن آغاز میں محدود اوورز کی کرکٹ کے تقاضوں کو پورا کرنا ہاشم آملا کی فطرت کے برخلاف سمجھا جاتا تھا جسے انہوں نے غلط ثابت کیا۔

شاہد آفریدی

1910628HB114_Aus_in_WI

شاہد آفریدی کا تصور ذہن میں آتے ہی کیا آتا ہے؟ چھکے، چوکے، کم سے کم گیندوں پر زیادہ سے زیادہ رنز لیکن جون 2009ء میں شاہد آفریدی نے اپنی زندگی کی سب سے اہم اور عمدہ اننگز کھیلی۔ یہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009ء کا سیمی فائنل تھا جس میں پاکستان کا مقابلہ جنوبی افریقہ سے تھا۔ پاکستان کے کپتان یونس خان نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ مقصد تھا ایک بڑے ہدف کا تعین لیکن صرف 8 رنز پر شاہ زیب حسن کی وکٹ گر گئی۔ سب کو توقع تھی کہ کپتان یونس خان خود میدان میں اتریں گے اور مزید کسی نقصان سے بچائیں گے۔ لیکن سب کو حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب شاہد آفریدی نے میدان کا رخ کیا۔ ان دنوں "لالا" اچھی فارم میں نہیں تھے اور خدشہ تھا کہ ہر گیند پر چوکا یا چھکا لگانے کی فطری عادت سے مجبور ہو کر وہ جلد ہی آؤٹ ہو جائیں گے۔ لیکن شاہد آفریدی نے سب کو حیران کردیا۔ 51 رنز کی ایسی اننگز تراشی، جس میں کوئی چھکا شامل نہیں تھا۔ 34 گیندوں پر 8 چوکوں کی مدد سے کھیلی گئی اس اننگز کی وجہ سے پاکستان 149 رنز تک پہنچا اور بعد ازاں 7 رنز سے کامیابی حاصل کرکے مسلسل دوسری مرتبہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے فائنل تک پہنچ گیا۔ آفریدی نے نہ صرف بلے بازی میں نصف سنچری بنائی بلکہ دو قیمتی وکٹیں بھی حاصل کیں۔ اس آل راؤنڈ کارکردگی کی وجہ سے انہیں میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا اور پاکستان بعد ازاں ورلڈ چیمپئن بنا۔ لیکن "لالا" کا بغیر چھکے کی نصف سنچری بنانا حیران کن امر تھا۔

شیونرائن چندرپال

Shivnarine-Chanderpaul

حال ہی میں دنیائے کرکٹ کو خیرباد کہنے والے شیونرائن چندرپال بنے بنائے ٹیسٹ بلے باز تھے۔ ان کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ رنز بنانے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ لیکن جب انہیں جوش آتا تھا تو پھر ویسی اننگز کھیلتے تھے جس کا ذکر ہم یہاں کر رہے ہیں۔

2003ء میں ویسٹ انڈیز چار ٹیسٹ مقابلوں میں آسٹریلیا کی میزبانی کر رہا تھا۔ پہلا مقابلہ جارج ٹاؤن، گیانا میں کھیلا گیا۔ ویسٹ انڈین کپتان برائن لارا نے ٹاس جیتا اور پہلے بلے بازی سنبھالی لیکن حالات اس وقت سنگین صورت اختیار کرگئے جب صرف 53 رنز پر آدھے کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ وقت کا تقاضا بھی تھا اور چندرپال کی فطرت بھی کہ وہ ذمہ دارانہ اننگز کھیلی اور مشکل حالات سے ٹیم کو نکالیں۔ انہوں نے ذمہ دارانہ اننگز تو کھیلی لیکن عین اپنی فطرت کے خلاف۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے لیکن انہوں نے صرف 69 گیندوں پر اپنی سنچری مکمل کرکے سب کو حیران کردیا۔

15 چوکوں اور دو چھکوں سے مزید اس شاندار سنچری کی وجہ سے ویسٹ انڈیز پہلی اننگز میں 237 رنز بنانے میں کامیاب ہوا۔ البتہ آخر میں مقابلہ آسٹریلیا نے ہی جیتا۔

مصباح الحق

Misbah-ul-Haq

مصباح الحق، جنہیں ان کے مخالفین 'ٹک ٹک' کے نام سے پکارتے ہیں، کے بارے میں ہمیشہ یہی تصور کیا جاتا ہے کہ وہ تیز اننگز کھیل ہی نہیں سکتے۔ "مار دھاڑ" کے شوقین پاکستانی تماشائی ہمیشہ مصباح الحق سے شاکی رہتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ یقین نہیں آتا تو 2014ء میں آسٹریلیا کے خلاف ابوظہبی ٹیسٹ میں مصباح کی اننگز دیکھ لیں۔

اس مقابلے کی سب سے خاص بات تو یہ تھی کہ پاکستان نے آسٹریلیا کو 356 رنز سے شکست دی۔ نہیں نہیں، آسٹریلیا نے نہیں پاکستان نے آسٹریلیا کو اتنے بڑے مارجن سے ہرایا۔ لیکن اس سے بھی شاندار مصباح کی دوسری اننگز میں کھیلی گئی باری تھی۔ صرف 56 گیندوں سنچری جو ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ انہوں نے اننگز میں گیارہ چوکوں کے ساتھ پانچ چھکے بھی لگائے۔

پاکستان نے پہلی اننگز میں 570 رنز بنانے کے بعد آسٹریلیا کو 261 رنز پر ٹھکانے لگایا۔ 309 رنز کی برتری لینے کے بعد پاکستان کا ہدف دوسری اننگز میں جلد از جلد بڑا مجموعہ اکٹھا کرکے آسٹریلیا کو دوبارہ بلے بازی کے لیے اتارنا تھا جو مصباح کی شاندار اننگز کی بدولت ممکن ہوا۔