پاکستان سپر لیگ: شکر خورے اور ذیابیطس

0 1,026

خدا شکر خورے کو شکر دے ہی دیتا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو ذیابیطس لاحق ہے کہ عوام "شکر" سے محروم رہ گئے ہیں۔ اس فقرے کے ابتدائی حصے میں شکر خورے کے اجمال کی تفصیل دراصل متحدہ عرب امارات میں دولت اور جدید دور کی جملہ سہولیات کی فراوانی کے باعث کرکٹ کا بلا جھجک ہونا ہے۔

80ء اور 90ء کی دہائی سے کرکٹ کی دنیا میں ایک ممتاز مقام رکھنے والا شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم اور اب اکیسویں صدی میں پاکستان کرکٹ کے دوسرے گھر کی حیثیت رکھنے والے دبئی اور ابوظہبی کے شاندار میدان میں بہت کم دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔ گو کہ امارات میں زیادہ تر کرکٹ پاکستان کی شمولیت سے مشروط رہی ہے مگر حالیہ دنوں میں ماسٹرز چیمپئنز لیگ نے اس رحجان کو ختم کرنے کی بنیاد رکھی ہے۔

کل 15 مقابلوں پر مشتمل ریٹائرڈ بین الاقوامی کھلاڑیوں کا یہ میلہ 33 فیصد مرحلہ یعنی پانچ مقابلے مکمل ہونے کے بعد بھی تماشائیوں کی توجہ مبذول کرانے میں ناکام رہا ہے۔ دبئی کے ضخیم اسپورٹس سٹی میں واقع 25 ہزار تماشائیوں کی گنجائش والے اسٹیڈیم میں سنیچر کی شب اسٹرائیکرز اور کمانڈرز کے مقابلے میں فقط چند سو تماشائی بیٹھے نظر آئے۔ گو کہ جمعرات کو دبئی میں ہونے والے افتتاحی مقابلے میں نسبتاً زیادہ مجمع محسوس ہوا مگر صورت حال حوصلہ افزا دکھائی نہیں دیتی۔ تو یہ ہے "شکر" اور "قصۂ شکر خوراں"۔ ایک طرف برائن لارا، شیونرائن چندر پال، مائیکل وان اور محمد یوسف جیسے قدآور لیجنڈز، تو ژاک کیلس، ایڈم گلکرسٹ، وریندر سہواگ، کمار سنگاکارا اور ہرشل گبز وغیرہ جیسے جدید کرکٹ کے بانیان اور ثقلین مشتاق اور مرلی دھرن جیسے جادوگر۔ اور تو اور عبد الرزاق، اظہر محمود، یاسر حمید و عرفات جیسے ارضِ وطن کے سپوت اور ایک عدد بزرگوار سیم بولر – رانا نوید الحسن – بھی پاکستانیوں کی دلچسپی کا سامان بننے کے لیے ماسٹرز لیگ کا حصہ ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ کرکٹ کے لحاظ سے امریکا جیسے "قحط زدہ" ملک میں آل اسٹارز کرکٹ 2015ء نے ہند و پاک کے شائقین کو خوب میدانون کی جانب کھینچا مگر عرب دنیا میں جہاں برصغیر کے مزدور سے لے کر ایگزیکٹو طبقے تک کے افراد موجود ہیں، ماسٹرز لیگ کے ابتدائی پانچ مقابلوں میں نشستیں چوتھائی بھی نہ بھر سکیں۔ ہوسکتا ہے بقیہ مقابلوں، بشمول سیمی فائنل اور فائنل، میں زیادہ لوگ اسٹیڈیم کا رخ کریں مگر آگے ایک پریشان کن صورتِ حال ہے، جس کے لیے ہمیں انگریزی مثل Elephant in the room سے زیادہ مناسب اور کوئی فقرہ نہیں مل رہا۔ اور وہ "ہاتھی" ہے پاکستان سپر لیگ!!

masters-champions-league

تین فروری یعنی آج سے ماسٹرز چیمپئنز لیگ دبئی کے بعد شارجہ جا رہی ہے اور چار فروری سے دبئی میں پاکستان سپر لیگ کا میلہ سجے گا۔ متحدہ عرب امارات میں برصغیر سے تعلق رکھنے والے کرکٹ کے شیدائی بھرے پڑے ہیں، اور ماسٹرز چیمیینز لیگ میں ان کی عدم دلچسپی کیا پاکستان سپر لیگ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے؟ ہوسکتا ہے، اور دعا بھی ہے، کہ ہمارا یہ خدشہ غلط ثابت ہو۔ پھر ایم سی ایل اور پی ایس ایل کے کچھ مقابلے ایک ہی وقت میں ہونے سے اور دبئی اور شارجہ جیسے قریبی شہروں میں انعقاد کی وجہ سے رہے سہے تماشائیوں کے بھی بٹنے کا خدشہ ہے۔ لیکن کیا پاکستان کرکٹ کے ناخداؤں اور کرکٹ کے ملاحوں – یعنی کرکٹرز – نے ایسا ہونے میں کوئی کسر چھوڑی بھی ہے؟

جس طرح پچھلے کئی سالوں میں پاکستانی ٹیم ماضی کے تمام غیر متوقع ہونے کے داغ دھو کر متوقع طور پر ہارتی رہی ہے – بالخصوص محدود اوورز کی کرکٹ میں – اس سے اور کچھ نہیں ہوا، شائقین سخت مایوس اور کرکٹ سے کنارہ کش ہوگئے ہیں۔ ایسا محض گمان نہیں ہے، بلکہ مسلسل مشاہدہ اور قریبی عزیزوں سے کرکٹ کے معاملے پر تبادلہ خیال اس رائے کی بنیاد ہے۔

یہاں موقع تو نہیں کہ ہم پاکستان کرکٹ ٹیم کی خراب کارکردگی کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار گِنوائیں، کیونکہ ہمارا موضوع یہ نہیں۔ موضوع تو یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ کی خرابی میں "گھر پر کرکٹ" نہ ہونے کے علاوہ قصور کس کا ہے؟ کیا پاکستانی عوام کی کرکٹ میں عدم دلچسپی کی صرف یہی ایک وجہ ہے کہ پاکستانی میدان برسوں سے غیر آباد ہیں؟ ہمارا خیال ہے کہ صرف یہ وجہ نہیں ہے۔ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ بند ہونے کے کافی عرصے بعد تک بھی مقامی میدانوں پر قومی ٹی20 کپ میں عوام کی شرکت اور اس ٹورنامنٹ کی پذیرائی بین الاقوامی سطح کے مقابلوں جیسی ہی کی جاتی رہی۔ قارئین کو یاد ہوگا کراچی اور فیصل آباد میں ہونے والے فائنلز میں گنجائش سے زیادہ تماشائی موجود رہے۔ خاص کر کراچی کے عوام نے جس طرح دوسرے شہروں کی ٹیموں کی بھی حوصلہ افزائی کی، وہ کرکٹ کے لیے بڑی خوش آئند بات تھی۔ مگر غالباً پاکستان کرکٹ میں موجود دائمی انتشار اور بورڈ کی پالیسیوں میں عدم تسلسل اور غیر منطقی فیصلوں نے نہ قومی کرکٹ ٹیم کی حالت درست کی اور نہ ہی مقامی کرکٹ کو فروغ مل سکا۔ جبکہ پڑوسی ممالک میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ ہوسکتا ہے کوئی ہم پر یہ الزام لگائے کہ ہم فقط تنقیدی اور منفی ذہن سے یہ باتیں سوچ رہے ہیں اور ہمیں تصویر کا مثبت پہلو ہی دیکھنا چاہیے۔ تو عرض یہ ہے کہ انسان مثبت پہلو ہی کو دل سے لگائے شتر مرغ کی طرح ریت میں گردان دابے کامیاب نہیں ہوسکتا۔

آئی سی سی کی بین الاقوامی ون ڈے رینکنگز میں پاکستان آٹھویں اور ٹی 20 میں ساتویں نمبر پر براجمان ہے۔ سعید اجمل اور یاسر شاہ جیسے بہترین گیند باز کرکٹ سے دور کر دیے گئے ہیں۔ حفیظ جو کہ اپنی چالاکی سے بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے بلے بازوں کو مقابلے کے شروع میں ہی قابو کرنے میں ماہر سمجھے جاتے تھے، وہ بھی گیند بازی سے فارغ ہوچکے ہیں۔ آفریدی کا بلّا خاموش اور گیند کو گویا سکتہ ہو گیا ہے۔ عرفان اپنا خوف کھو چکے ہیں۔ جنید کو صحت ملی تو فارم کھو گئی۔ نجانے کتنے ہی کھلاڑیوں کو بغیر کسی میرٹ کے ڈیبیو کروایا گیا اور پھر وہ گمنامی کے پردوں میں جا کھوئے۔ مسلسل رد و بدل نے کھلاڑیوں کے اعتماد کو بھی متزلزل کیا اور ٹیم پر عوام کے اعتماد کو بھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مقامی مقابلہ کراچی و لاہور میں ہو یا بین الاقوامی مقابلہ دبئی و شارجہ میں، میدان ہمیں مکمل گنجائش تک بھرے نظر نہیں آتے۔

پی ایس ایل ہی کو لے لیا جائے تو کرکٹ بورڈ نے تشہیر کی ساری ذمے داری فرنچائزز پر ڈال دی۔ یہ بری چیز نہیں ہے لیکن شاید عوام کو میدانوں تک لانے کے لیے فقط فرنچائزوں کی جانب سے ٹی وی اور سوشل میڈیا پر مہم کافی نہیں ہے۔ یا پھر ہو سکتا ہے ہم بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور چونکہ یہ پہلا پہلا سیزن ہے پی ایس ایل کا اور ہو بھی ملک سے باہر رہا ہے تو اس کو شاید مزید وقت اور محنت دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ محنت کرکٹ کے مقامی اور بین الاقوامی حال حلیے پر کرنے کی زیادہ ضرورت ہے کہ کھلاڑی اچھا اور تکنیکی کھیل پیش کریں اور عوام کے دل جیتیں۔

PSL-Logo