مقابلہ تھا شاہکار! کرس مورس نے کمال کردیا

2 1,058

انگلستان کے خلاف ٹیسٹ اور پھر پانچ ایک روزہ مقابلوں میں ابتدائی دو شکستوں کے بعد جنوبی افریقہ اب جاگتا محسوس ہو رہا ہے۔ گمان، بلکہ شائقین کی بڑی تعداد کو تو یقین، تھا کہ چوتھے ایک روزہ مقابلے میں جنوبی افریقہ کو شکست ہوگی۔ آخر کیوں نہ ہوتا کہ حالات ہی ایسے تھے۔ 263 رنز کے تعاقب میں 210 رنز پر آٹھ کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے اور آخری 9 اوورز میں 53 رنز کی ضرورت تھی۔ یہاں "گلابی" کرس مورس نے وہ اننگز کھیلی جو مدتوں یاد رکھی جائے گی۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جنوبی افریقہ شکست کے دہانے سے سیریز میں واپس آ گیا ہے اور اب پانچویں، آخری اور فیصلہ کن ایک روزہ کے لیے پر عزم ہے۔

جوہانسبرگ کے تاریخی وینڈررڈ اسٹیڈیم میں ہونے والے مقابلے کا ایک، ایک لمحہ شاندار تھا۔ جنوبی افریقہ کے کپتان ابراہم ڈی ولیئرز نے ہدف کے تعاقب کا فیصلہ کیا اور ٹاس جیت کر پہلے انگلستان کو بلے بازی کی دعوت دی۔ یہ دعوت مہمانوں کو بالکل راس نہ آئی۔ ان کا کوئی ابتدائی بلے باز جنوبی افریقہ کے سامنے ٹھیر نہ سکا اور صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ صرف 108 رنز پر 6 کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ لیکن امید کی آخری کرن جو روٹ کی صورت میں کریز پر موجود تھی اور انہوں نے مایوس نہیں کیا۔ انہوں نے مسلسل دوسری سنچری بنائی لیکن ایک اچھا ہدف دینے کے لیے انہیں دوسرے کنارے سے کسی بلے باز کے ساتھ کی بھی ضرورت تھی اور یہ کام کیا کرس ووکس نے۔ دونوں نے ساتویں وکٹ کے لیے 95 رنز جوڑے اور انگلستان کو کافی حد تک مشکل مرحلے سے نکال لیا۔ کاگیسو رباڈا نے 203 کے مجموعے پر ووکس کو آؤٹ کرکے اس خطرناک روپ دھارتی رفاقت کا خاتمہ کردیا۔ روٹ کا ساتھ دینے کے لیے عادل رشید میدان میں اترے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ بلے بازی کا ہنر جانتے ہیں۔

روٹ اور عادل نے آٹھویں وکٹ کے لیے ابھی 30 رنز ہی جوڑے تھے کہ کرس مورس کے ہاتھ روٹ کی بڑی وکٹ آ گئی۔ 109 رنز کی اہم اننگز کے دوران جو نے 124 گیندیں کھیلیں اور ایک چھکا اور10 چوکے بھی لگائے۔ یہ ان کے 67 مقابلوں کے ایک روزہ کیریئر میں آٹھویں سنچری تھی جو ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بہرحال، انگلستان 250 رنز سے آگے جاتا نہیں دکھائی دیتا تھا لیکن عادل رشید کی 26 گیندوں پر 39 رنز کی اننگز نے سب اندازے غلط ثابت کردیا۔ 48 ویں اوور میں جب ان کی وکٹ گرتے ہی انگلستان کی اننگز مکمل ہوئی تو اسکور 262 رنز پر تھا۔ 108 رنز پر چھ آؤٹ ہو جانے کے بعد یہ بہترین واپسی تھی۔

جنوبی افریقہ کی جانب سے رباڈآ نے 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور سب سے کامیاب گیندباز رہے۔ ان کا بھرپور ساتھ عمران طاہر نے دیا جنہوں نے تین وکٹیں لیں۔ کائل ایبٹ کے حصے میں دو، اور مورس کے حصے میں ایک، لیکن سب سے اہم، شکار آیا یعنی جو روٹ۔

بہرحال، اب جنوبی افریقہ کے ساتھ 263 رنز کا ہدف تھا۔ تیسرے مقابلے میں صرف 3 وکٹوں پر 319 رنز کا ہدف حاصل کرنے کے بعد یہ بالکل آسان دکھائی دیتا تھا خاص طور پر وینڈررز کے چھوٹے اسٹیڈیم کو دیکھ کر کہ جہاں جنوبی افریقہ کے بلے باز خوب رنز بھی لوٹتے ہیں۔ لکن پہلے ہی اوور میں ہاشم آملا کے صفر پر آؤٹ ہونے سے مقابلہ دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گیا۔ یہ وہی ہاشم تھے کہ جنہوں نے گزشتہ مقابلے میں 127 رنز بنائے تھے۔

فف دو پلیسی اور ان فارم کوئنٹن ڈی کوک نے دوسری وکٹ کے لیے 61 رنز جوڑے۔ مجموعے کے 63 تبک پہنچتے ہی ڈی کوک کی اننگز تمام ہوئی۔ اس بار وہ صرف 27 رنز بنا سکے۔ لیکن میزبان کے لیے بڑا دھچکا چند ہی گیندوں کے بعد تھا کہ فف دو پلیسی کرس ووکس کے ہاتھوں آؤٹ ہوگئے۔

یہ صورت حال جنوبی افریقہ کے لیے ہرگز حوصلہ افزا نہیں تھی۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ڈی ولیئرز اور ژاں-پال دومنی نے میدان سنبھالا اور 49 رنز جوڑ کر کچھ راحت کا سامان کیا۔ باہمی شراکت داری کو 50 کے ہندسے تک پہنچانے کے لیے دونوں بلے باز دوڑ ہی رہے تھے کہ ووکس کی شاندار فیلڈنگ نے ڈی ولیئرز کو واپسی کا پروانہ تھما دیا۔ یہ کامیابی گویا انگلستان کے لیے فتح کی ضمانت تھی۔ ڈی ولیئرز 27 گیندوں پر 36 رنز بنا چکے تھے اور بہترین موڈ میں دکھائی دیتے تھے۔ اس وکٹ کے ملتے ہی انگلستان کے کھلاڑیوں میں نئی جان آ گئی۔ وہ دباؤ بڑھاتے چلے گئے اور جیسے ہی کسی جنوبی افریقہ بلے باز کی اننگز آگے بڑھتی، اسے ٹھکانے لگا دیتے۔ 143 رنز پر دومنی بھی گئے، پھر چھٹی وکٹ پر فرحان بہاردین اور ڈیوڈ ویز کی 48 رنز کی شراکت داری بھی فتح کی ضمانت نہ بن سکی۔ بہاردین کے 38 رنز پر آؤٹ ہونے کے ساتھ ہی ویز اور رباڈا بھی پویلین لوٹ گئے۔ یعنی 210 رنز اور 8 کھلاڑی آؤٹ۔ اب بھلا انگلستان کو کامیابی سے کون روک سکتا تھا۔

Imran-Tahir

اس نازک مرحلے پر کرس مورس کریز پر موجود تھے اور ان کے ارادے آج کچھ اور ہی تھے۔ نویں وکٹ پر کائل ایبٹ کے ساتھ 52 رنز کی شراکت داری کے لیے انہوں نے صرف 6 اوورز لیے۔ دلچسپ بات یہ کہ ان میں سے ایبٹ کو صرف 11 گیندیں ہی کھیلنے کو ملیں، باقی سب کا مقابلہ مورس نے کیا اور تن تنہا کیا۔ وہ پورا مقابلہ نکال کر لے آئے لیکن ہدف سے محض رنز کے فاصلے پر عادل رشید کے ہاتھوں آؤٹ ہوگئے۔ 38 گیندوں پر 62 رنز کی شاہکار اننگز تمام ہوئی لیکن مقابلہ ایک مرتبہ پھر کھل گیا تھا۔ انگلستان کو فتح کے لیے صرف ایک وکٹ کی ضرورت تھی جبکہ جنوبی افریقہ کو پانچ رنز۔ یہاں عمران طاہر کے چوکے نے جنوبی افریقہ کو کامیابی تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا اور ایک وکٹ سے جیتنے کے بعد سیریز کو دو-دو سے برابر کرنے میں بھی۔ کرس مورس کو میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا۔

جنوبی افریقہ اور انگلستان کا پانچواں اور آخری مقابلہ 14 فروری کو کیپ ٹاؤن میں واقع دنیا کے خوبصورت ترین میدان نیولینڈز میں کھیلا جائے گا۔