برینڈن میک کولم کا 100 واں ٹیسٹ یادگار نہ بن سکا، بدترین شکست

0 1,190

نیوزی لینڈ اپنے کپتان برینڈن میک کولم کے 100 ویں ٹیسٹ کو یادگار روپ نہ دے سکا اور آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے پہلے مقابلے میں ایک اننگز اور 52 رنز کی بھاری شکست کھا بیٹھا۔

بیسن ریزرو، ویلنگٹن میں نیوزی لینڈ کا حال پہلے دن کے پہلے سیشن سے لے کر آخر تک برا رہا۔ انہوں نے مقابلے کا آغاز ہی 51 رنز پر پانچ وکٹیں ضائع کرکے کیا۔ اس کے بعد آسٹریلیا جیسی ورلڈ کلاس ٹیم کو مقابلے کی دوڑ سے باہر کرنا بہت مشکل تھا اور نیوزی لینڈ ایسا کرنے میں کامیاب بھی نہ ہو سکا۔ یوں آسٹریلیا نے ایک روزہ میں شکست کا بدلہ ٹیسٹ سیریز میں لے لیا۔

پہلی اننگز میں 183 رنز پر ڈھیر ہو جانے کے بعد نیوزی لینڈ کے لیے آسٹریلیا بہت بڑا امتحان بن گیا۔ عثمان خواجہ کے 140 اور اس کے بعد ایڈم ووجس کی ریکارڈ ساز 239 رنز کی اننگز نے آسٹریلیا کو 562 رنز تک پہنچا دیا۔ یعنی نیوزی لینڈ کے لیے صرف اننگز کی شکست سے بچنے کے لیے ہی 379 رنز بنانا ضروری تھا اور ہدف دینا تو اس کے بعد کی بات ہوتی۔ نیوزی لینڈ نے شروعات تو اچھی کی لیکن کوئی بلے باز اننگز کو طوالت نہدے سکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ218 رنز تک 7 کھلاڑی کھلاڑی پویلین لوٹ گئے۔ ٹم ساؤتھی اور مارک کریگ نے بالترتیب 48 اور 33 رنز بنا کر شکست کے مارجن کو کچھ کم کیا۔

اگر ٹاپ آرڈر کی بات کی جائے تو ٹام لیتھم اور پہلا ٹیسٹ میچ کھیلنے والے ہینری نکلس سب سے کامیاب رہے۔ لیتھم نے 63 رنز بنائے تو مشکل حالات میں نکلس نے 59 رنز کی اچھی اننگز کھیلی۔ دوسری طرف مارٹن گپٹل 45 رنز پر آؤٹ ہوئے تو کین ولیم سن صرف 22 رنز ہی بناسکے۔ یہ سب ایک بڑی شکست کو روکنے کے لیے بہرحال کافی نہیں تھا

کین ولیم سن اور بی جے واٹلنگ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ مشکل حالات میں لمبی اننگز کھیل سکتے ہیں لیکن آسٹریلوی گیند بازوں کے سامنے دونوں ہی ہمت ہار گئے۔ واٹلنگ اب تک ٹیسٹ کرکٹ میں بہت زیادہ کامیاب تو نہیں ہوئے، لیکن اُن کا کمال یہ ہے کہ وہ ریکارڈ ساز شراکت داریوں کا حصہ رہے ہیں۔ 2014ء میں بھارت کے خلاف برینڈن مک کولم کے ہمراہ 510 منٹوں پر مشتمل 352 رنز کی شراکت داری تو آج بھی یاد آتی ہے جس کے سبب نیوزی لینڈ کو یقینی شکست سے نجات ملی تھی، اور پھر گزشتہ برس سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ میچ میں واٹلنگ نے ولیم سن کے ساتھ بھی چھٹی وکٹ کے لیے 479 منٹ وکٹ پر رہ کر 365 کی ریکارڈ ساز شراکت داری قائم کی تھی۔بہرحال، آسٹریلیا کی جانب سے سب سے زیادہ چار وکٹیں لیون نے لیں جبکہ مچل مارش کے حصے میں تین وکٹیں آئیں۔

قبل ازیں ٹاس جیتنے کے بعد سے ہی آسٹریلیا مقابلے پر چھا گیا۔ گیند بازوں کے لیے شاندار وکٹ پر اسٹیون اسمتھ نے ٹاس جیت کر گیند تھامی اور باؤلرز نے شاندار کارکردگی کے ذریعے کپتان کا فیصلہ بالکل ٹھیک ثابت کیا۔ نیوزی لینڈ نہ صرف یہ کہ 182 رنز پر ڈھیر ہوا اور اس پر طرہ یہ بدقسمتی کہ دوسرے روز وکٹ میں گیندبازوں کے لیے مدد ختم ہوگئی اور اس نے بلے بازوں کی حمایت شروع کردی۔ ان حالات کا عثمان خواجہ اور ایڈم ووجس نے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور چوتھی وکٹ کے لیے 169 رنز کی زبردست شراکت داری قائم کی۔ اِس موقع پر 140 رنز بنانے کے بعد عثمان خواجہ تو آؤٹ ہوگئے لیکن ووجس نے ہمت نہیں ہاری اور 239 رنز بناکر دسویں نمبر پر آؤٹ ہوئے۔ اُن کی اِس اننگز کی خاص بات یہ تھی کہ اِس دوران انہوں دو بڑے ریکارڈ اپنے نام کیے۔ پہلا ریکارڈ ناٹ آؤٹ رہتے ہوئے ٹیسٹ میں مسلسل سب سے زیادہ رنز یعنی 500 رنز بنانے کا۔ اس سے قبل یہ ریکارڈ عظیم بیٹسمین سچن تنڈولکر کے پاس تھا کہ جو 2004ء میں 497 رنز بنانے میں کامیاب رہے تھا۔ پھر اسی اننگز کے دوران ووجس نے 100 کا اوسط بھی حاصل کیا۔

اس شاندار کامیابی کے بعد آسٹریلیا کے کپتان اسٹیون اسمتھ کہتے ہیں کہ ٹیسٹ درجہ بندی میں نمبر ایک مقام حاصل کرے کے لیے یہ پہلا پڑاؤ تھا۔ اب ہمیں دوسرا مقابلہ بھی جیتنا ہے تاکہ ہم اپنی منزل حاصل کرلیں۔ یاد رہے کہ دو ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز میں کلین سویپ کے نتیجے میں آسٹریلیا بھارت سے اپنا کھویا ہوا نمبر ایک مقام واپس چھین لے گا۔

دوسری جانب برینڈن میک کولم کا کہنا تھا کہ ٹاس ہارنے کے بعد ہی سے نیوزی لینڈ کے کھلاڑی دفاعی پوزیشن میں آ گغے تھے اور 51 رنز پر پانچ کھلاڑیوں کا آؤٹ ہو جانا اس کی واضح مثال ہے۔

اب دوسرا ٹیسٹ 20 فروری سے کرائسٹ چرچ میں کھیلاجائے گا جو برینڈن میک کولم کا آخری ٹیسٹ ہوگا جسے نیوزی لینڈ کے کھلاڑی جیت کر اپنے کپتان کے نام کرنا چاہیں گے۔