عامر کی 'دلیرانہ' کارکردگی، لیکن پاکستان پھر ہار گیا

4 1,052

طویل عرصے بعد دنیائے کرکٹ نے تیز باؤلنگ کا ایسا نظارہ دیکھا ہوگا۔ محمد عامر نے پابندی بھگتنے کے بعد اپنے پہلے سب سے بڑے مقابلے میں شاندار باؤلنگ کی لیکن وہ ان "گناہوں" کو نہ دھو سکے کہ جو پاکستان کے بلے بازوں نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے کیے تھے۔ صرف 83 رنز پر آل آؤٹ۔ معمولی ہدف کے تعاقب میں بھارت کو ابتدا ہی میں محمد عامر کی تباہ کن باؤلنگ کا سامنا کرنا پڑا لیکن ویراٹ کوہلی کی عمدہ اننگز کی بدولت بھارت کسی نہ کسی طرح بچ گیا اور سولہویں اوور میں پانچ وکٹوں کے نقصان پر ہی ہدف تک جا پہنچا۔

پاکستان کی ناقص بلے بازی اور بھارت کی شاندار آل راؤنڈ کارکردگی اپنی جگہ لیکن میچ کی اصل 'جھلک' محمد عامر کا وہ اسپیل تھا کہ جس میں انہوں نے دنیائے کرکٹ کے دل جیت لیے۔ بھارتی اننگز کی پہلی ہی گیند پر روہیت کے خلاف ایل بی ڈبلیو کی مسترد ہونے والی زوردار اپیل اور اگلی ہی گیند پر انہیں صفر پر ڈھیر کرکے اور پھر اسی اوور میں اجنکیا راہانے کو بھی اسی ہزیمت سے دوچار کرکے عامر نے ایک یکطرفہ مقابلے میں جان بھر دی۔ اگلے اوور میں انہوں نے ویراٹ کوہلی کو تقریباً آؤٹ کردیا تھا لیکن ایل بی ڈبلیو کی زوردار امپائر کے ہاتھوں مسترد ہوگئی اور یہیں سے مقابلہ بھارت کے حق میں پلٹتا چلا گیا۔ گو کہ اگلی گیند پر عامر نے سریش رینا کو آؤٹ ضرور کیا اور بھارت کو صرف 8 رنز پر تین وکٹوں سے محروم کردیا لیکن کوہلی اور یووراج سنگھ کی 68 رنز کی شراکت داری نے پاکستان کو میچ پر چھانے نہیں دیا۔

کوہلی نے انتہائی دباؤ میں، ایک تیز باؤلرز کے لیے سازگار وکٹ پر عامر، عرفان، وہاب اور سمیع کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے خود کو ثابت کیا۔ ان کی اننگز میں 7 خوبصورت چوکے بھی شامل تھے جس کی بدولت ایسی وکٹ پر جہاں کوئی بیٹسمین 25 سے اوپر نہیں گیا، انہوں نے 51 گیندوں پر 49 رنز بنائے۔ کوہلی ضرور اپنی تیرہویں ٹی ٹوئنٹی نصف سنچری مکمل کرتے لیکن امپائر کے ایک ناقص فیصلے نے انہیں اس سے محروم کردیا۔ گو کہ ناقص فیصلے امپائر پہلے بھی دو دے چکے تھے لیکن دونوں بھارت کے حق میں گئے تھے۔ بہرحال، بھارت کو اس فیصلے سے کوہلی کی نصف سنچری سے محرومی کے سوا کوئی نقصان نہ پہنچا کیونکہ وہ ہدف سے صرف 8 رنز کے فاصلے پر تھا۔ سمیع نے اس کے بعد ہردیک پانڈیا کو بھی آؤٹ کیا۔ سولہویں اوور کی تیسری گیند پر مہندر سنگھ دھونی نے چوکے کے ذریعے بھارت کو کامیابی دلائی۔ پاکستان کی جانب سے سب سے مایوس کن باؤلنگ وہاب ریاض ہی نے کروائی جنہوں نے انتہائی مددگار وکٹ پر 3.3 اوورز میں 31 رنز دیے اور کوئی وکٹ نہ لے سکے۔ محمد عامر، محمد سمیع اور محمد عرفان نے شاندار گیندبازی دکھائی۔ عامر نے صرف 18 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کیں۔ سمیع نے صرف 16 رنز دیے اور دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ عرفان نے گو کہ 16 رنز دیے لیکن وہ کوئی وکٹ نہ لے سکے۔

Mohammad-Amir

قبل ازیں پاکستان نے اپنے 'معیار' سے بھی گری ہوئی بلے بازی دکھائی۔ بھارت نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بلے بازی کی دعوت کیا تھی، گویا بھیڑ قصاب کے سامنے پھینک دی گئی۔ پہلے اوور سے لے کر آخر تک سوائے وکٹیں گرنے کے کوئی اور کام نہیں ہوا۔ سرفراز احمد کی تین چوکوں پر مشتمل 25 رنز کی اننگز نکال دیں تو کچھ بھی نہ بچے۔ پہلے اوور میں محمد حفیظ صرف چار رنز بنا کر وکٹوں کے پیچھے کیچ دے گئے اور پھر شرجیل خان سے زوال کا آغاز شروع ہوا۔ وہ 7 رنز بنا کر جسپریت بمراہ کی وکٹ بنے۔ اس کے بعد خرم منظور کی باری آئی جو شعیب ملک کے 'آسرے' پر بری طرح رن آؤٹ ہوئے۔ اگلی بار خود شعیب کی تھی۔ وہ صرف 4 رنز بنانے کے بعد ہردیک پانڈیا کی گیند پر وکٹوں کے پیچھے دھر لیے گئے۔ عمر اکمل نے محض تین رنز بنائے اور یووراج سنگھ کی میچ میں پہلی ہی گیند پر ایل بی ڈبلیو قرار پائے۔ صرف 35 رنز پر پاکستان کی آدھی بیٹنگ لائن میدان بدر تھی۔ طرّہ یہ کہ اسی اوور کی آخری گيند پر کپتان شاہد آفریدی رویندر جدیجا کے ایک شاندار تھرو پر رن آؤٹ ہوگئے۔

اب ایک اینڈ سے سرفراز احمد نے عزت بچانے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ بدقسمتی سے انہیں کسی کا ساتھ میسر نہ آ سکا اور خود وہ بھی کوئی "میچ بچاؤ" اننگز نہ کھیل سکے۔ 15 ویں اوور کے اختتام تک مجموعہ 70 تک آ چکا تھا۔ یہاں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہی تھا کہ وہ تمام اوورز کھیلے لیکن 16 ویں اوور کی پہلی گیند سرفراز احمد کی روانگی کا پروانہ لے کر آئی۔ وہ ایک غیر ضروری کٹ کھیلنے کی کوشش میں کلین بولڈ ہوئے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کی 100 رنز تک پہنچنے کی 'امید' بھی ختم ہوگئی۔ 18 ویں اوور کی تیسری گیند پر محمد عامر کے بولڈ ہوتے ہی پاکستان کی اننگز صرف 83 رنز پر تمام ہوئی۔ یہ بھارت کے خلاف پاکستان کی بدترین بیٹنگ کارکردگی تھی۔

اتنے 'بڑے مقابلے' میں ایسی بلے بازی کتنی غیر متوقع اور مایوس کن ہوگی، اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ پاکستان سپر لیگ کے شاندار اختتام کے بعد کم از کم اس بری کارکردگی کی توقع نہیں تھی۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کے کھلاڑیوں میں 'دباؤ' جھیلنے کی طاقت صفر ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت معرکے کے لیے مکمل طور پر تیار اور مستعد نظر آیا اور ان کے نئے باؤلرز تک مکمل طور پر چوکنے تھے۔ جیسا کہ ہردیک پانڈيا نے صرف 8 رنز دے کر تین وکٹیں حاصل کیں۔ ایک کھلاڑی کو جسپریت بمراہ نے بھی آؤٹ کیا اور انہوں نے بھی تین اوورز میں صرف 8 رنز دیے۔

ویراٹ کوہلی کو دن کی سب سے بڑی اننگز کھیلنے پر میچ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ ملا۔ ان کی اس کارکردگی کی بدولت پاکستان کی بھارت کے ہاتھوں ٹی ٹوئنٹی شکستوں کا سلسلہ مزید دراز ہوگیا ہے۔ بھارت 7 مقابلوں میں چھ فتوحات حاصل کرچکا ہے اور بلاشبہ آج جیت کا اصل حقدار وہی تھا۔

بھارت اب دو مقابلوں میں کامیابیوں کے ساتھ ایشیا کپ کے پوائنٹس ٹیبل پر پہلے مقام پر موجود ہے۔ سری لنکا نے واحد مقابلے میں متحدہ عرب امارات کے خلاف کامیابی حاصل کی اور دوسری پوزیشن پر فائز ہے۔ بنگلہ دیش نے دو میں سے ایک مقابلہ جیتا ہے اور اس کے دو پوائنٹس ہیں۔ اب محض پاکستان اور متحدہ عرب امارات ہیں جنہوں نے اب تک کھاتہ نہیں کھولا۔ پاکستان 29 فروری کو متحدہ عرب امارات ہی کے خلاف اپنا دوسرا مقابلہ کھیلے گا جبکہ یکم مارچ کو سری لنکا کا سامنا کرے گا۔