سمیع ناکام کیوں؟ پاکستان کرکٹ تاریخ کا سب سے بڑا راز

2 1,100

دنیا کے بدترین بلے بازوں، بدترین فیلڈرز اور بدترین امپائروں کے ہوتے ہوئے تو آپ تاریخ کے عظیم ترین باؤلرز کے ساتھ بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کے باوجود بنگلہ دیش کے خلاف شکست کا الزام کسی حد تک باؤلنگ، خاص طور پر محمد سمیع، کو دینا چاہیے۔ جب اسکور بورڈ پر بلے بازوں نے صرف 129 رنز جوڑے ہوں، تو باؤلرز کو 'دوش' دینا اچھا تو نہیں لگتا لیکن سمیع میچ کے اہم ترین مرحلے پر اعصابی طور پر ڈھیر ہوگئے جو ان جیسے وسیع تجربہ رکھنے والے باؤلر کو زیب نہیں دیتا۔ اس کا بڑا نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا جو نہ صرف ایشیا کپ سے باہر ہوا بلکہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیسے اہم ٹورنامنٹ سے قبل حوصلے بھی انتہائی زوال کو پہنچ گئے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے، ہم اس سوراخ سے دوسری بار ڈسے گئے ہیں۔

اہم ترین اوور میں سمیع کی بدترین کارکردگی اور دوسرے باؤلرز کی محنت پر پانی پھیرتے ہوئے دیکھنا ہمیں جون 2012ء میں لے جاتا ہے۔ سری لنکا کے خلاف ایک روزہ مقابلے میں سمیع آخری اوور میں 15 رنز کا دفاع بھی نہیں کر پائے تھے۔ حالانکہ 49 ویں اوور میں سہیل تنویر نے صرف چھ رنز دیے تھے۔ اور سمیع کو آخری اوور میں تمام تر دباؤ سے آزاد کردیا تھا۔ لیکن 'کراچی ایکسپریس' صرف چار گیندیں کی محتاج ثابت ہوئی۔ وائیڈ بھی پھینکی، چھکا بھی کھایا اور چوکے کے ساتھ مقابلے کا اختتام بھی کیا۔ آج بنگلہ دیش کے خلاف ایشیا کپ 2016ء کے 'سیمی فائنل نما' مقابلے میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی تھی۔ محمد عامر کے شاندار اوور نے حالات پاکستان کے حق میں کردیے تھے۔ بنگلہ دیش کو دو اوورز میں 18 رنز کی ضرورت تھی جب سمیع کو گیند تھمائی گئی۔ تین گیندوں تک حواس پر قابو رکھنے کے بعد خدشات کے عین مطابق ان کے ہاتھوں کے طوطے یکدم اڑے اور پھر انہیں پکڑنے والا کوئی نہیں تھا۔ دو نو-بالز، دو چوکے اور 15 رنزکے ساتھ میچ کے جھکاؤ کا فیصلہ ہوگیا، جو پاکستان کے حق میں نہیں تھا۔ آخری اوور میں دفاع کے لیے انور علی کے پاس صرف تین رنز بچے جو پہلی گیند پر چوکے کے ساتھ پاکستان کے اخراج پر منتج ہوا۔

imran-sami

آپ کو شاید سن کر حیرت ہو کہ عمران خان نے کبھی محمد سمیع کے بارے میں کہا تھا کہ یہ "نئے زمانے کا میلکم مارشل" ثابت ہوگا۔ جو باؤلر وسیم اکرم اور وقار یونس کے ساتھ کھیلا ہو، شعیب اختر اور عمر گل کے زمانہ عروج میں ان کے شانہ بشانہ رہا ہو، جس کی تربیت میں عمران خان کا بھی حصہ ہو، اس سے کبھی ایسی کارکردگی کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔ پھر 'ٹو ڈبلیوز' کی ریٹائرمنٹ کے بعد تو سمیع کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ ان کے پاس بھرپور رفتار بھی تھی، فٹنس بھی اور پورے مواقع بھی لیکن وہ کبھی توقعات کے مطابق کارکردگی نہ دکھا سکے۔ 36 ٹیسٹ میچز میں ان کا باؤلنگ اوسط 52.74 ہے جو تاریخ میں اتنے زیادہ میچز کھیلنے والے کسی بھی باؤلر کا بدترین اوسط ہے۔ ایک روزہ میں وہ 29.47 کے اوسط سے 121 وکٹیں لینے میں کامیاب رہے اور ٹی ٹوئٹی میں ان کی اہلیت تو آج ثابت ہو ہی گئی۔

15 سال کے عرصے کے دوران 130 سے زیادہ بین الاقوامی مقابلے کھیلنے، 223 وکٹیں لینے اور سب سے بڑھ کر 558 فرسٹ کلاس، 241 لسٹ اے اور 106 ٹی ٹوئنٹی شکار کرنے کے بعد تو باؤلر کو اتنا پتہ ہونا چاہیے کہ 19 ویں اوور میں بنگلہ دیش کو کس طرح روکنا ہے۔ سمیع پہلے کی طرح 'بند دماغ' کے ساتھ کھیلے اور نتیجہ پاکستان کی ایک اور شکست کی صورت میں نکلا۔

آخر سمیع کی کہانی ناکام کیوں ہے؟ یہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا راز ہے۔ کوئی وجہ نہیں تھی جو ان کو آگے بڑھنے سے روکتی لیکن ہر نازک مرحلے پر سمیع کا ثابت کرنا کہ ان میں دباؤ جھیلنے کی صلاحیت صفر ہے، ان کی بین الاقوامی سطح پر ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ چلیے آپ کو سمیع کے بارے میں دو دلچسپ باتیں بتاتے ہیں: ایک، ایشیا کپ ہو اور مقابل بنگلہ دیش ہو تو ویسے ہی ان کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں۔ ایشیا کپ 2004ء میں سمیع نے بنگلہ دیش کے خلاف ایک مقابلے میں 16 گیندوں پر مشتمل ایک اوور پھینکا تھا۔ پہلے اوور میں ایک وکٹ لینے کے باوجود دوسرے میں ان کی 'لائن لینتھ' ایسی بگڑی کہ اوور ختم کرنا مشکل ہوگیا۔ 7 وائیڈز اور تین نو بالز کے ساتھ دو چوکے کھاکر بمشکل اوور تمام ہوا۔ لیکن محمد سمیع کے پاس ایک ایسا اعزاز بھی ہے جو کرکٹ تاریخ میں کسی بھی باؤلر کے پاس نہیں۔ وہ تینوں فارمیٹس میں ہیٹ ٹرک کا اعزاز رکھنے والے تاریخ کے واحد گیندباز ہیں 🙂

Mohammad-Sami2