ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے شاہکار

6 1,107

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی عالمی کرکٹ کا سب سے "جدید" ٹورنامنٹ ہے، یعنی اس کے آغاز کو ابھی صرف 9 سال ہی ہوئے ہیں لیکن مقبولیت میں اس نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب چھٹا ایڈیشن آج سے شروع ہو رہا ہے اور یہی بہترین وقت ہے کہ ہم اس ٹورنامنٹ میں اب تک کھیلی گئی چند تاریخی، یادگار اور ہم ترین اننگز کو یاد کریں جنہوں نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کو مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کی ااور تاریخ پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

گیل اور گبز، جوہانسبرگ باؤلنگ کا قبرستان

Chris-Gayle
پہلے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا پہلا مقابلہ، میزبان جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز آمنے سامنے تھے اور یہ ایسا میچ تھا جو کئی حوالوں نے یادگار ثابت ہوا۔ ویسٹ انڈیز نے پہلے بلے بازی کی اور کرس گیل نے پہلے ہی گیند پر چوکا لگا کر اپنے ارادوں کا اظہار کیا۔ میدان کے چاروں طرف چوکوں اور چھکوں کی برسات تھی جس میں گیل صرف 26 گیندوں پر نصف سنچری مکمل کرنے میں کامیاب رہے اور بعد میں 15 ویں اوور میں اپنی تاریخ ساز سنچری مکمل کی، وہ بھی صرف 57 گیندوں پر۔ کرس گیل کی 117 رنز کی اننگز کی بدولت ویسٹ انڈیز نے 205 رنز بنائے۔

اب 206 رنز کا ہدف مکمل کرنا بالکل آسان نہیں تھا، وہ بھی اس وقت جب ٹی ٹوئنٹی اپنے ابتدائی ایام میں تھی۔ لیکن جنوبی افریقہ کے ہرشل گبز نے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ انہوں نے 55 گیندوں پر 90 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگز کھیلی۔ ہدف کی تکمیل میں 22 گیندوں پر 46 رنز نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ یوں محدود ترین طرز کے پہلے عالمی کپ کا پہلا مقابلہ ہی شاہکار بن گیا کہ جس میں جنوبی افریقہ نے 14 گیندیں پہلے ہی اپنا ہدف مکمل کرلیا۔ اس کامیابی میں ایک "خفیہ" کردار ویسٹ انڈیز کے گیندبازوں کا بھی ہے کہ جنہوں نے 23 وائیڈز پھینکیں اور جنوبی افریقہ کے لیے مزید آسانیاں پیدا کیں لیکن یہ مقابلہ گیل کے 117 اور گبز کے 90 رنز کی بدولت ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

یووراج سنگھ، چھ پہ چھ

Yuvraj-Singh
ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2007ء میں پہلا اور بلاشبہ اب تک کا سب سے کامیاب ٹورنامنٹ تھا جس میں ہمیں کئی یادگار لمحات دیکھنے کو ملے۔ بھارت کے یووراج سنگھ کی انگلستان کے خلاف بلے بازی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ انگلستان اس وقت ٹورنامنٹ سے تقریباً باہر تھا جب بھارت کے خلاف گیندبازی کرتے ہوئے 16 ویں اوور میں یووراج سنگھ نے تاریخ رقم کردی۔ وہ اسٹورٹ براڈ کے اوور کی تمام چھ گیندوں پر چھکے لگا کر نہ صرف اس طرز کی کرکٹ میں یہ کارنامہ انجام دینے والے پہلے کھلاڑی بن گئے بلکہ تیز ترین نصف سنچری کا نیا عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا۔

بدقسمت اسٹورٹ براڈ کے تو وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ جس اوور کا وہ آغاز کر رہے ہیں، وہ کتنا مہنگا ثابت ہوگا۔ پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی، پانچویں، چھٹی ہر گیند پر اسٹورٹ نے جتن کر لیے لیکن یووراج کے بلّے تک پہنچنے کے بعد گیند کی منزل ایک ہی دکھائی دی، سیدھا میدان سے باہر۔

یووراج کی یہ اننگز آج بھی تیز ترین نصف سنچری کا درجہ رکھتی ہے، اور بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی کی واحد اننگز بھی ہے کہ جس میں کسی گیندباز نے ایک ہی اوور میں چھ چھکے لگائے ہوں۔

مصباح الحق – دو چار ہاتھ جب لب بام رہ گیا


پہلے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں دو بار ایسا ہوا کہ پاکستان جیت کے کنارے تک پہنچ گیا، لیکن ہمت ہار بیٹھا اور عجب بات یہ ہے کہ دونوں غیر متوقع شکستیں روایتی حریف بھارت کے خلاف ہی ہوئیں اور دونوں بار مصباح الحق ہی اس کی وجہ بنے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ مصباح الحق نے دونوں مقابلوں میں بہترین بلے بازی کی لیکن اختتام موثر ثابت نہ ہو سکا۔ اسے کہا جا سکتا ہے کہ "ہاتھی نکل گیا، دم پھنس گئی۔"

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2007ء میں گروپ مرحلے میں جب بھارت اور پاکستان مقابل آئے تو پاکستان کو جیت کے لیے 141 رنز کا ہدف ملا۔ ابتدائی 4 بلے باز تو 47 پر ہی میدان سے واپس آ چکے تھے۔ یہاں مصباح نے ڈوبتی کشتی سنبھالی اور اپنی شاندار بلے بازی کی وجہ سے میچ پاکستان کے حق میں کردیا۔ مصباح کے 34 گیندوں پر 53 رنز کی بدولت دونوں ٹیموں کا اسکور برابر ہوگیا لیکن مصباح کی ایک غلطی نے انہیں رن آؤٹ کردیا اور یوں معاملہ "بال آؤٹ" مرحلے میں چلا گیا کہ جو اس وقت ٹائی مقابلوں کے فیصلے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہاں پاکستان کو شکست ہوئی لیکن اس کے باوجود دونوں ٹیمیں فائنل تک پہنچیں۔ ٹھیک 10 دن بعد روایتی حریفوں کے درمیان ایک اور تاریخی مقابلہ کھیلا گیا۔ جہاں پاکستان کو اسی صورت حال کا سامنا دوبارہ کرنا پڑا۔ بھارت نے 157 رنز کا ہدف دیا اور محتاط کھیلنے کی منصوبہ بندی کے باوجود پاکستان 9 اوورز میں 64 رنز پر چار وکٹیں گنوا بیٹھا۔ مصباح الحق بلےبازی کے لیے آئے اور اس مرتبہ بھی اپنی صلاحیتوں کا خوب مظاہرہ کیا۔ 16 ویں اوور میں جب سات کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے تو 54 رنز اب بھی باقی تھے۔ یہاں مصباح الحق نے ہربھجن سنگھ کو تین چھکے لگا کر پاکستان کی جیت کی امیدیں مزید روشن کردی۔ معاملہ آخری اوور میں درکار 13 رنز تک پہنچا۔ گیند ایک غیر معروف گیندباز جوگندر شرما کے ہاتھ میں تھی جو اس قدر دباؤ میں تھے کہ مسلسل دو وائیڈز پھینک دیں اور اس کے بعد مصباح کے ہاتھوں چھکا بھی کھایا۔ اب 4 گیندیں تھیں اور صرف 6 رنز۔ مقابلہ پاکستان کی جیب میں تھا کہ مصباح نے اپنی زندگی کا سب سے غلط فیصلہ لیا۔ انہوں نے تیسری گیند کو اسکوپ کرنے کی کوشش کی جو شارٹ تھرڈمین پر کھڑے فیلڈر سیر سانتھ نے پکڑ لیا اور یوں بھارت غیر یقینی انداز میں ورلڈکپ جیت گیا۔ اس کے باوجود مصباح کی 38 گیندوں پر 43 رنز کی یہ اننگز عظمت کے تمام پیمانوں پر پوری اترتی ہے۔

مائیکل ہسی، سینٹ لوشیا میں طوفان

GYI0000698072.jpg
ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2010ء میں آسٹریلیا تمام مقابلے جیت کر فائنل تک پہنچا تھا۔ وہ ایک روزہ کا عالمی چیمپئن بھی تھا، نمبر ایک ٹیم بھی اور اب ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا اعزاز حاصل کرنے سے بھی کوئی اس کو روک نہیں سکتا تھا لیکن اسے روایتی حریف انگلستان کے ہاتھوں شکست ہوئی اور یوں "دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے۔" لیکن حقیقت یہ ہے کہ آسٹریلیا فائنل تک بھی صرف ایک کھلاڑی کی وجہ سے پہنچا تھا ورنہ اس کا اخراج یقینی تھا۔ یہ سیمی فائنل میں پاکستان کے خلاف مائیکل ہسی کی طوفانی اننگز تھی کہ جسے کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔

آسٹریلیا مسلسل پانچ میچز جیت کر سیمی فائنل تک پہنچا تھا۔ ان میں سے دو مقابلے ایسے تھے جہاں آسٹریلیا شکست کے دہانے تک پہنچا لیکن مائیکل ہسی نے اسے بچا لیا۔ سیمی فائنل میں بھی اسے کچھ ایسے ہی حالات کا سامان تھا۔ پاکستان اکمل برادران کی شاندار بیٹنگ کی بدولت 191 رنز جیسا پہاڑ جیسا مجموعہ کھڑا کر چکا تھا اور آسٹریلیا اتنے بڑے ہدف کےپیچھے صرف 67 رنز پر چار بلے بازوں سے محروم ہوچکا تھا۔ پاکستان ہر گیند کے ساتھ جیت کے قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ ایسے میں مائیکل ہسی خطرناک ارادوں کے ساتھ میدان میں اترے اور اس طرح "میدان مارا" کہ آج بھی یقین نہیں آتا۔

آسٹریلیا کو آخری تین اوورز میں 48 رنز کی ضرورت تھی جو گھٹتے ہوئے آخری اوورز میں 18 رنز تک آ گئی۔ پاکستان نے آخری اوور اپنے نمایاں گیندباز سعید اجمل کو دیا۔ مائیکل ہسی نے بے رحمانہ انداز میں پہلی چار گیندو ں پر ہی مقابلے کا خاتمہ کردیا۔ چھکا، چھکا، چوکا اور چھکا، مقابلہ تمام، آسٹریلیا خوشی سے اور پاکستان غم سے بے حال!۔ مائیکل ہسی نے 24 گیندوں پر 60 رنز بنائے اور تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ کے لیے محفوظ کروا لیا۔

کیون پیٹرسن، چیمپئن کھلاڑی چیمپئن اننگز


کرکٹ کی "جنم بھومی" انگلستان کے لیے 2010ء ایک یادگار سال تھا۔ کبھی عالمی کپ نہ جیتنے والے انگلستان کو ویسٹ انڈیز کی سرزمین راس آ گئی جہاں ان نے تاریخ کا پہلا بڑا ٹورنامنٹ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی صورت میں جیتا۔ اس کامیابی کے معمار تھے کیون پیٹرسن۔ وہ نہ صرف فائنل کے مردان میدان بنے بلکہ پورے ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز بھی حاصل کیا۔

"سپر 8" مرحلے میں پاکستان کے خلاف انہی کے 52 گیندوں پر 73 رنز کی شاندار اننگز کی بدولت انگلستان کو کامیابی نصیب ہوئی اور اس کے بعد انگلستان جنوبی افریقہ کو شکست دے کر سیمی فائنل تک پہنچا تب بھی پیٹرسن کے 33 گیندوں پر 53 رنز نمایاں تھے۔ سیمی فائنل میں انہوں نے 26 گیندوں پر 40 رنز بنائے اور یوں فائنل کی راہ ہموار ہوئی۔

یہاں انگلستان کا مقابلہ روایتی حریف آسٹریلیا سے تھا جو مائیکل ہسی کی ناقابل یقین بیٹنگ کی بدولت پاکستان کو غیر متوقع شکست دے کر فائنل تک پہنچا تھا۔ یہاں 147 رنز کے تعاقب میں انگلستان کا آغاز مایوس کن تھاکیونکہ صرف 7 رنز پر مائیکل لمب کی وکٹ گر چکی تھی۔ ان کے بعد کریگ کیزویٹر کا ساتھ دینے کےلیے کیون پیٹرسن میدان میںاترے اور جب 31 گیندوں پر شاندار 47 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تو انگلستان ہدف سے صرف30 رنز کے فاصلے پر تھا جو حاصل کرکے انگلستان عالمی چیمپئن بن گیا۔

برینڈن میک کولم - دھواں دار سنچری


برینڈن میک کولم نہ صرف نیوزی لینڈ بلکہ دنیا کے بہترین ٹی ٹوئنٹی بلے باز تھے۔ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء کے ایک گروپ مقابلے میں نیوزی لینڈ نے بنگلہ دیش کو باآسانی 59 رنز سے شکست دی لیکن یہ کوئی غیر معمولی کامیابی نہیں تھی بلکہ اس میں میک کولم کے صرف 58 گیندوں پر 123 رنز شامل تھے جو مختصر ترین طرز کی اس کرکٹ میں آج بھی تیسری سب سے بڑی اننگز ہے۔ لیکن اس کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ میک کولم پانچویں اوور میں بیٹنگ کے لیے آئے تھے جبکہ باقی دونوں مواقع اوپنرز نے حاصل کیے تھے جو پہلے ہی اوور میں کریز پر موجود تھے۔ یعنی میک کولم ایک چوتھائی اوورز گزرنے کے بعد میدان میں آئے اور ایک بھرپور سنچری اننگز کھیلی۔ پہلے 36 رنز انہوں نے 23 گیندوں پر بنائے اور اس کے بعد اننگز اگلے گیئر میں ڈالی کہ صرف 19 گیندوں پر مزید 36 رنز بنا ڈالے۔ آخری 51 رنز کے لیے انہوں نے صرف 15 گیندیں کھیلیں۔

کرارے "پل" شاٹ اور زبردست ڈرائیوز کا بھرپور ملاپ نظر آیا، جن سے ہر وہ شخص واقف ہے جس نے میک کولم کو کھیلتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کے تمام سات چھکے ایکسٹرا کور اور "کاؤ کارنر" کے درمیان تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اپنے کیریئر کے عروج پر انہوں نے کرکٹ چھوڑ دی اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء میں نظر نہیں آئیں گے۔