شاہد آفریدی کے لیے ایک نیک مشورہ

2 1,021

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان اپنے پہلے، اور اہم ترین، امتحان میں سرخرو ٹھیرا۔ بنگلہ دیش کے خلاف 55 رنز سے کامیابی کی وجہ سے اہم ٹورنامنٹ میں پہلا تاثر ہی بہت عمدہ گیا ہے اور امید ہے کہ پاکستان آگے بھی ایسی ہی کارکردگی دکھائے گا۔

بنگلہ دیش کے خلاف یہ کامیابی کئی لحاظ سے اہمیت کی حامل تھی۔ ایک تو ایشیا کپ میں حالیہ شکست سے ہونے والی شرمندگی کسی حد تک کم ہوگئی ہوگی، دوسرا پے در پے ہارنے کے بعد دل شکستہ کھلاڑیوں کو کچھ حوصلہ ملا ہوگا، وہی حوصلہ کہ جس کی آئندہ میچز کے لیے سخت ضروری ہے۔ مگر اس مقابلے سے جو سب سے بڑا سہارا ملا ہے وہ کپتان شاہد آفریدی کی کارکردگی ہے۔ کافی عرصے سے مایوس کن اظہار کے بعد "لالا" آج اصل رنگ و روپ میں نظر آئے۔ ہمت کرتے ہوئے اوپر کے نمبروں پر کھیلنے آئے اور پھر دو چھکوں اور 4 چوکوں کی مدد سے صرف 18 گیندوں پر 49 رنز کی دھواں دار بلے بازی دکھائی۔ ناقدین کے منہ بند ہو چکے ہیں، یہ الگ بات کہ یہ زباں بندی آخر کب تک قائم رہتی ہے۔ سیدھی سی بات ہے اس کا انحصار مکمل طور پر شاہد آفریدی کی اپنی کارکردگی پر ہے۔

شاہد آفریدی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے آج تک کسی کو یہ نہیں پتہ لگنے دیا کہ وہ بنیادی طور پر اچھے بلے باز ہیں یا گیندباز؟ جہاں کہیں چند وکٹیں لے لیں تو اسپن باؤلر کے طور پر نمایاں ہو جاتے ہیں اور جب تھوڑے سے رنز بن جائیں تو فوراً بلے بازوں کی صف میں شامل کردیے جاتے ہیں۔ اس طرح کسی ایک شعبے میں کارکردگی کے ذریعے عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔ لیکن جناب، 20 سال دیکھنے کے بعد اب شاہد آفریدی کے "بھی مہربان کیسے کیسے" ہوگئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اب کرکٹ چھوڑ دیں۔ شاہد آفریدی نے کئی ماہ پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء بین الاقوامی کرکٹ میں آخری مقام ہوگا جہاں وہ کھیلیں گے لیکن اس ٹورنامنٹ سے عین پہلے انہوں نے کہہ دیا تھا کہ خاندان اور دوستوں کے دباؤ کی وجہ سے وہ ریٹائرمنٹ واپس لینے پر غور کر رہے ہیں۔

لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ شاہد آفریدی رو بہ زوال ہیں۔ حالیہ پاکستان سپر لیگ اور ایشیا کپ میں کارکردگی ہی کو دیکھ لیں۔ پوری سپر لیگ میں ایک نصف سنچری بھی نہیں بنا سکے اور گیندبازی میں بھی سوائے ایک میچ میں پانچ وکٹوں کے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی۔ ایشیا کپ تو ایک ڈراؤنا خواب تھا۔ چار مقابلوں میں دہرے ہندسے کو بھی عبور نہ کر سکے اور گیندبازی میں بھی کل "کمائی" صرف دو وکٹیں تھیں۔ اس مایوس کن کارکردگی کے فوراً بعد ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیسے پہلے ٹورنامنٹ کے پہلے ہی مقابلے میں مردِ میدان قرار پانا ایک خوشگوار حیرت ہے اور یہ بات یاد رکھیں، حیرت زیادہ دیر برقرار نہیں رہتی۔

بلاشبہ شاہد آفریدی کی موجودگی ان کی کارکردگی سے زیادہ وزنی ہوتی ہے۔ مخالف اس کشمکش میں ہی رہتا ہے کہ کہیں وہ چل پڑے تو کیا ہوگا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ 20 سال کی متحرک کرکٹ کے بعد شاہد آفریدی اگر عمدہ کارکردگی کے ساتھ کرکٹ چھوڑیں گے تو بہت عرصے تک یاد رکھے جائیں گے۔ بالکل اپنے ہیرو عمران خان کی طرح کہ جو عالمی کپ بغل میں لیے رخصت ہوئے اور آج تک ان پر انگلی کوئی نہیں اٹھاتا۔ ایسا نہ ہو کہ شاہد آفریدی جیسا پائے کا کھلاڑی محض چند مقابلوں کی کارکردگی کی وجہ سے یاد نہ رکھا جائے۔