نیوزی لینڈ کا دوسرا بڑا شکار، آسٹریلیا بھی گیا

0 1,052

نیوزی لینڈ نے مچل میک کلیناگھن کی شاندار باؤلنگ اور کپتان کین ولیم سن کے دلچسپ قائدانہ فیصلوں کی وجہ سے آسٹریلیا کے خلاف اہم معرکہ بھی جیت لیا اور یوں ابتدائی دونوں مقابلوں میں فتوحات حاصل کرکے سیمی فائنل کی جانب اہم پیش قدمی کی ہے۔

دھرم شالا میں ہونے والے مقابلے میں نیوزی لینڈ کو صرف 143 رنز کے ہدف کا دفاع کرنا تھا اور پچھلے قدموں پر جانے کے باوجود وہ واپس آنے میں کامیاب ہوگیا اور 'ہاٹ فیورٹ' بھارت کے بعد ایک اور برج گرا دیا ہے۔

نیوزی لینڈ نے پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور ابتدائی 7 اوورز تک آسٹریلیا کے باؤلرز کو ایک وکٹ بھی نہ لینے دی۔ اس وقت اسکور بورڈ پر 61 رنز موجود تھے اور یہ ایک بڑے مجموعے کے لیے بہترین بنیاد تھی۔ لیکن آسٹریلیا کی عمدہ باؤلنگ کے سامنے نیوزی لینڈ اس آغاز کا خاص فائدہ نہ اٹھا سکا۔

مارٹن گپٹل 39 اور ساتھی اوپنر کین ولیم سن 24 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تو وکٹیں گرتی ہی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ 14 اوورز میں صرف 97 رنز اسکور بورڈ پر موجود تھے۔ یعنی 7 اوورز میں صرف 36 رنز کا اضافہ اور چار وکٹیں؟ اس مرحلے نے آسٹریلیا کو کھیل پر مکمل طور پر حاوی کردیا۔

گرانٹ ایلیٹ کی کے 20 گیندوں پر 27 رنز نیوزی لینڈ کو بمشکل 142 رنز تک لائے۔ آخری چھ اوورز میں بلے بازوں نے کل 45 رنز کا اضافہ کیا جو ہر گز حوصلہ افزا نہیں تھا۔

آسٹریلیا کی جانب سے ابتدائی گیندباز نیتھن کولٹر-نائل تو ناکام رہے لیکن بعد میں جیمز فاکنر اور گلین میکس ویل نے نیوزی لینڈ کے بلے بازوں کے ہاتھ پیر خوب باندھے۔ دونوں نے تین، تین اوورز پھینکے اور 18، 18 رنز دے کر دو، دو وکٹیں حاصل کیں۔

مقابلے میں بھرپور واپسی کے بعد آسٹریلیا کو ایک شاندار آغاز کی ضرورت تھی جو عثمان خواجہ اور شین واٹسن نے بہم پہنچایا۔ دونوں کے دھواں دار آغاز کے بعد تو آسٹریلیا کو 15 اوورز میں لگ بھگ 100 رنز کی ضرورت تھی اور اس کی تمام وکٹیں بھی باقی تھیں۔ یہاں مچل میک کلیناگھن کے جادوئی ہاتھ سے پہلا شکار حاصل کیا۔ واٹسن 12 گیندوں پر 13 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تو مچل سینٹنر نے بھی ہمت پکڑی۔ ان کی ایک خوبصورت گیند حریف کپتان اسٹیون اسمتھ کی اننگز کا خاتمہ کرگئی۔

نویں اوور کی آخری گیند پر یہ عثمان خواجہ کا رن آؤٹ تھا کہ جس نے مقابلے کو برابری کی سطح پر لا کھڑا کردیا۔ وہ 27 گیندوں پر 38 رنز بنانے کے بعد دوسرا رن لینے کی ناکام کوشش میں دھر لیے گئے۔

جب آدھے اوورز مکمل ہوئے تو آسٹریلیا تین وکٹوں پر 66 رنز کے ساتھ موجود تھا حالانکہ وہ پہلے پانچ اوورز میں 44 رنز بنا چکا تھا لیکن وکٹیں گرنے سے رنز بنانے کی رفتار میں خاصی کمی آ چکی تھی اور جو کسر رہ گئی تھی وہ سینٹنر کے ہاتھوں ڈیوڈ وارنر کی وکٹ گرنے سے پوری ہوگئی۔

اب مقابلہ دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گیا تھا۔ گلین میکس ویل اور مچل مارش نے 34 رنز کا اضافہ کرکے آسٹریلیا کو مقابلے کی دوڑ میں برقرار رکھا یہاں تک کہ ایش سودھی نے 22 رنز پر میکس ویل کو ٹھکانے لگا دیا۔

پھر بھی مچل مارش کے دو زبردست چھکے آسٹریلیا کو مقابلے میں واپس لے آئے۔ اسے آخری دو اوورز میں 22 رنز کی ضرورت تھی جب ميک کلیناگھن کو اہم ترین 19 واں اوور دیا گیا۔ انہوں نے پہلی ہی گیند پر مارش کو ایک دھیمی گیند سے آؤٹ کیا اور پانچویں پر آشٹن ایگر کی وکٹ حاصل کرکے تہلکہ مچا دیا۔ یہی نہیں، انہوں نے اس اوور میں صرف تین رنز دیے۔ یوں آسٹریلیا کے سامنے آخری اوور میں 19 رنز موجود تھے اور افسوس یہ ہے کہ کوئی مائیکل ہسی موجود نہ تھا۔ ولیم سن نے گیند کوری اینڈرسن کو تھمائی جن کی پہلی ہی گیند فاکنر کی آخری گیند ثابت ہوئی۔ آسٹریلیا 20 اوورز مکمل ہونے پر 9 وکٹوں پر 134 رنز ہی بنا سکا اور یوں 8 رنز سے میچ ہار گیا۔

میک کلیناگھن نے 3 اوورز میں 17 رنز دے کر تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز جیتا۔ دو، دو وکٹیں اینڈرسن اور سینٹنر نے حاصل کیں۔

اس کامیابی میں جہاں نیوزی لینڈ کے مضبوط اعصاب کا ہاتھ تھا، وہیں کپتان کین ولیم سن کے فیصلوں کا کردار بھی نمایاں رہا۔ انہوں نے ناگ پور میں بھارت کے خلاف مقابلے سے قبل مددگار وکٹ دیکھ کر تین اسپنرز میدان میں اتارے تھے، جو بعد میں فیصلہ کن کردار ادا کر گئے۔ آج انہوں نے دھرم شالا میں نیتھن میک کولم کو بٹھا کر میک کلیناگھن کو کھلایا اور جو ہوا وہ سب نے دیکھا۔

اب نیوزی لینڈ کو اگلا مقابلہ 22 مارچ کو پاکستان کے ساتھ چندی گڑھ میں کھیلنا ہے اور وہاں اگر شکست ہو بھی گئی تو وہ 26 مارچ کو بنگلہ دیش کے خلاف کامیابی حاصل کرکے سیمی فائنل کی نشست مضبوط کر سکتا ہے۔ دوسری جانب نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد آسٹریلیا کو اب سوموار کو بنگلہ دیش سے کھیلنا ہے۔