"کب پھوڑیں گے یار؟" کوہلی کا کمال، پاکستان کو پھر شکست

4 1,156

کلکتہ کے ایڈن گارڈنز کی ناقابل یقین حد تک مشکل وکٹ پر ویراٹ کوہلی نے ثابت کیا کہ آخر انہیں دنیا کا بہترین بلے باز کیوں سمجھا جاتا ہے؟ ایک ایسی پچ کہ جہاں پاکستان بہتر بلے بازی دکھانے کے بعد 18 اوورز میں 118 رنز بنا پایا اور بھارت بھی تعاقب میں 23 رنز پر تین بلے بازوں سے محروم ہوگیا، کوہلی نے صرف 37 گیندوں پر 55 رنز کی شاندار اننگز کھیلی اور بھارت کو 16 ویں اوور میں کامیابی سے ہمکنار کردیا۔ یوں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بھارت کی پاکستان کے خلاف فتوحات کا سلسلہ مزید دراز ہوگیا ہے۔

بارش سے متاثرہ مقابلے کا آغاز تاخیر سے ہوا جو 18 اوورز فی اننگز تک محدود کردیا۔ پاکستان و بھارت کے عظیم سابق کھلاڑیوں کے اعزاز میں مختصر تقریب کے بعد ٹاس بھارت کے کپتان مہندر سنگھ دھونی نے جیتا اور پہلے پاکستان کو بلے بازی کی دعوت دی۔ پچ میں واقعی "باردوی سرنگیں" بچھی ہوئی تھیں۔ بقول شخصے ٹپہ کلکتہ میں پڑتا تھا اور گیند نکلتی راجکوٹ کی طرف تھی لیکن بھارت کے گیندبازوں کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے اس کے باوجود گیند پر قابو رکھا۔

پاکستان نے آغاز بہت محتاط انداز میںکیا۔ شاید یہ منصوبہ تھا کہ ابتدائی پانچ، چھ اوورز میں کوئی وکٹ نہیں گرنے دیں گے۔ شرجیل خان اور احمد شہزاد نے پہلی وکٹ کے لیے 38 رنز جوڑے لیکن اس دوران آٹھویں اوور تک پہنچ گئے۔ گرتے ہوئے رن اوسط کو دیکھ کر شاہد آفریدی خود میدان میں آئے لیکن وکٹ ایسی تھی کہ ان کی بھی ایک نہ چلی 14 گیندوں پر 8 رنز بنانے کے بعد لانگ آن پر کیچ دے کر چلتے بنے۔ اس دوران احمد شہزاد کی 25 رنز کی اننگز کا بھی خاتمہ ہوگیا اور پاکستان 12 ویں اوور میں صرف 60 رنز پر تین وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا۔

یہاں پر عمر اکمل اور شعیب ملک نے 41 رنز کی ایک عمدہ اور تیز شراکت داری قائم کی۔ بھارتی کپتان کی جانب سے تیز گیندبازوں کو پے در پے اوورز دینے کا دونوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور صرف چار اوورز میں یہ رنز حاصل کیے۔ پاکستان کی اننگز رواں ہوتی دکھائی ے رہی تھی لیکن بھارت نے آخر اوورز میں بہترین واپسی کی۔ 16 ویں اوور میں عمر اکمل 22 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے جبکہ اگلے ہی اوور میں 26 رنز بنانے والے شعیب ملک بھی وکٹ دے گئے۔ دونوں نے صرف 16، 16 گیندیں کھیلیں اور پاکستان کو تہرے ہندسے تک لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جب مقررہ 18 اوورز تکمیل کو پہنچے تو اسکور بورڈ پر صرف 118 رنز موجود تھے۔ بہرحال، پہلی اننگز میں جو وکٹ کی صورت حال تھی اسے دیکھتے ہوئے تو یہ رنز بھی بہت زیادہ لگ رہے تھے بس بڑا سوال یہ تھا کہ کیا اتنے رنز بھارت کو روکنے کے لیے کافی ہوں گے؟

119 رنز کا تعاقب بھارت کے لیے مشکل تھا خاص طور پر جب تیسرے اوور کی پہلی گیند پر روہیت شرما "عام سے باؤلر" محمد عامر کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے اور اسی اینڈ سے محمد سمیع نے چوکا کھانے اور نو بال دینے کے بعد دو مسلسل گیندوں پر شیکھر دھاون اور سریش رینا کو بولڈ کردیا۔ بھارت ایشیا کپ والے مقابلے کی طرح ایک مرتبہ پھر پریشانی سے دوچار ہوا۔ اس کی تین وکٹیں صرف 23 رنز پر گر چکی تھیں اور بالکل اسی مقابلے کی طرح یہاں بھی ویراٹ کوہلی اور یووراج سنگھ بچاؤ کے لیے آئے۔ دونوں نے پاکستان کو مزید کوئی موقع نہ دیا۔ اسپن گیندبازی میں دم خم نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی کمزوری کا پورا پورا فائدہ اٹھایا اور 61 رنز کی فاتحانہ شراکت داری قائم کرکے پاکستان کو مقابلے کی دوڑ سے باہر کردیا۔ پاکستانی گیندباز بمشکل کہیں جاکر صرف یووراج کی وکٹ لے سکے جنہوں نے 23 گیندوں پر 24 رنز بنائے۔ البتہ کوہلی آخر تک میچ پر چھائے رہے۔ انہوں نے صرف 37 گیندیں کھیلیں، ایک چھکا اور 7 چوکے لگائے اور 55 رنز کے ساتھ میدان سے ناقابل شکست لوٹے۔ کپتان مہندر سنگھ دھونی نے 13 رنز کے ساتھ ان کا بھرپور ساتھ دیا جس میں آخری اوور میں محمد عرفان کو لگایا گیا ایک کرارا چھکا بھی شامل تھا۔

نیوزی لینڈ کے ہاتھوں پہلے مقابلے میں بدترین شکست کے بعد بھارت کے لیے روایتی حریف پر قابو پانا بہت اہم تھا۔ اس میں کامیابی کے بعد اب ٹوٹے ہوئے حوصلے بحال ہو چکے ہیں اور بھارت بنگلہ دیش اور آسٹریلیا کے خلاف اگلے مقابلوں کے ذریعے سیمی فائنل کی نشست حاصل کر سکتا ہے۔

البتہ پاکستان کے لیے اب صرف مشکلات ہیں۔ بنگلہ دیش کے خلاف حوصلہ افزا کامیابی کے بعد امید کی جو کرن آج پیدا ہوئی تھی، اسے کوہلی نے تو ختم کر ہی دیا ہے۔ ساتھ ہی آگے دو بہت مشکل میچز ہیں۔ پہلے ناقابل شکست نیوزی لینڈ اور پھر خطرناک آسٹریلیا۔ 22 مارچ کو موہالی، چندی گڑھ میں نیوزی لینڈ کے خلاف کامیابی پاکستان کے لیے ضروری ہے، بصورت دیگر معاملہ آخر تک اور دیگر مقابلوں کے نتائج پر چلا جائے گا۔