پاکستان کرکٹ کو درپیش مسائل کی جڑ

3 1,192

جب کوچ اور کپتان اپنی عقل کے بجائے دوسروں کے فیصلوں پر چلنے لگیں تو پھر وہی ہوتا ہے جو کل پاک بھارت میچ میں قومی ٹیم ساتھ ہوا۔ اسپنرز کے لیے سازگار وکٹ پر ہم نے چار تیز گیند کھلائے اور ان دو اسپنرز پر انحصار کیا جو کہ دراصل بلے باز ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قومی ٹیم کے پاس ڈھنگ کا ایک اسپنر نہیں تھا۔ ڈرسینگ روم میں بیھٹے محمد نواز اور عماد وسیم کو ایسے موقع ہی کے لئے دستے میں شامل کیا گیا تھا لیکن قربان جائیے ٹیم منتخب کرنے والے دانشوروں اور انہیں مشورہ دینے والوں کی عقل پر کہ جنھوں نے پچ کا جائزہ لئے بغیر تیز گیند بازوں سے مدمقابل کو زیر کرنے کی تجویز دی۔

پاکستان کرکٹ کا اصل مسئلہ کھلاڑی نہیں بلکہ غیر سنجیدہ انتظامیہ اور ان کی غلط حکمت عملی ہے۔ ایک طرف سفارشی کھلاڑیوں کو دستے میں جگہ دی جاتی ہے تو دوسری طرف میدان میں صورتحال اور پچ کا اندازہ لگائے بغیر کھلاڑی اتار دیئے جاتے ہیں۔ جب کھلاڑی کارکردگی کے بجائے سفارش کے ذریعے ٹیم میں آتے ہیں تو ان پر اچھا کھیل پیش کرنے کے لیے سرے سے کوئی دباؤ ہی نہیں ہوتا۔ انہیں علم ہوتا ہے کہ جب وہ پہلے بھی بغیر کسی قابل ذکر کارکردگی دکھائے ٹیم کا حصہ بنے ہیں تو آئندہ بھی بن ہی جائیں گے۔ پھر اس سے محنت کرنے والے باصلاحیت کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کا عالم تو وہی شخص لگاسکتا ہے کہ جو اس طرح کے حالات سے گزرا ہو۔ رہی بات حتمی ٹیم منتخب کرنے کی تو معلوم ہوتا ہے کہ دستیاب کھلاڑیوں میں سے بہترین چنے کے بجائے محض گیارہ کا عدد پورا کرنا ہی سلیکشن کمیٹی کا حدف ہے۔ پھر چاہے ٹیم میں بلے بازوں کی اکثریت ہوجائے، اسپنرز کے لیے سازگار وکٹ پر فاسٹ بالر آجائیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کپتان کو بس وہی ٹیم کھلانا پڑتی ہے اور نتیجہ حسب سابق ڈھاک کے تین پات۔

Shahryar-Khan

پاکستان کرکٹ ٹیم کے زوال کی سب سے بڑی وجہ منتظم بورڈ کی سربراہی کرکٹ سے ناواقف اور نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں ہونا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی اعلی انتظامیہ پر نظر دوڑایئے تو اوپر سے نیچے تک کوئی میڈیا کا بندہ ہے یا پھر کوئی بیورکریٹ ہے۔ اس فہرست میں آپ کو ریٹائرڈ جرنل اور سیاست دان بھی مل جائیں گے مگر نظر نہیں آتا تو صرف کرکٹر۔ پوری دنیا میں کھیل کا شعبہ سابق کھلاڑیوں کے زیر نگرانی چلتا ہے لیکن یہاں گنگا ہی الٹا بہتی ہے۔ ہماری ان افتخار الدین خان نواب آف ممڈوٹ سے شروع ہوکر نجم سیٹھی پر ہی ٹوٹتی ہے۔

پی سی بی کے سابق سربراہان کے ناموں پر غور کیجیے تو شاید ہی کوئی کرکٹر نظر آئے گا۔ محمد علی بوگرہ، سکندر مرزا، فیلڈ مارشل ایوب خان، جسٹس اے ار کارنلیس، ائیر مارشل نور خان (یہ واحد شخصیت ہیں جن کے دور میں پاکستان میں کھیل کو فروغ حاصل ہوا) جسٹس نسیم حسن شاہ، ڈاکٹر ظفر الطاف، توقیر ضیاء، ڈاکٹر نسیم اشرف وغیرہ وہ شخصیات ہیں کہ جنہیں برسراقتدار حکومتوں نے پی سی بی کی سربراہی بطور تحفہ دی گئی اور پھر انہوں نے کرکٹ کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان شخصیات نے اپنی خواہشات کو تجربے اور صلاحیت کا رنگ دے کر ایسے فیصلے کیے جن سے کئی باصلاحیت کھلاڑیوں کا مستقبل تاریک ہوا۔

اب مسلسل زوال کو دیکھتے ہوئے پی سی بی میں بڑے پیمانے پر تبدلیاں کرنی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے کسی "چڑیا" پر انحصار کے بجائے سابق کھلاڑیوں کو کرکٹ بورڈ کی باگ ڈور سنبھالنی ہوگی۔ چیف سلیکٹر سے لیکر کوچ تک ہر ذمہ داری ایسے کھلاڑی کو دی جائے جو ذاتی انا کی بجائے ملک وقوم کے لئے اس شعبے کو فعال بنانے کے لیے مناسب فیصلے کرے تاکہ دوبارہ بیرون ملک پاکستان شرمسار ہونے سے بچ جائے۔