جنوبی افریقہ 'بلند حوصلہ' افغانستان پر قابو پانے میں کامیاب

0 2,189

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء میں ممکنہ حد تک بدترین آغاز کے بعد بالآخر جنوبی افریقہ نے افغانستان پر قابو پا کر اپنی پہلی کامیابی حاصل کر ہی لی ہے۔ پھر بھی افغانستان نے جس طرح جم کر 'پروٹیز' کا مقابلہ کیا، اس نے دیگر ٹیموں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ جنوبی افریقہ نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر 200 کی نفسیاتی حد عبور کی تو جواب میں افغانستان بھی 172 رنز تک پہنچا جو بغیر ڈیل اسٹین کے کھیلنے والے جنوبی افریقہ کی باؤلنگ کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے اور ٹورنامنٹ میں شریک کئی ٹیموں کے لیے آئینہ بھی حریف کا مقابلہ کس طرح دلیری اور پامردی سے کیا جاتا ہے۔

ممبئی میں ہونے والے مقابلے میں جنوبی افریقہ نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا او تیسرے ہی اوور میں ہاشم آملا کی قیمتی وکٹ گنوائی کہ جو صرف پانچ رنز بنانے کے بعد شاپور زدران کا واحد شکار بنے۔ لیکن اس کے بعد کوئنٹن ڈی کوک اور کپتان فف دو پلیسی نے مجموعے کو 90 رنز تک پہنچا دیا۔ یہاں پر جنوبی افریقہ ایک معمولی سا دھچکا ضرور پہنچا کہ وہ تہرے ہندسے سے قبل دونوں بیٹسمینوں سے محروم ہوگیا۔ پہلے 27 گیندوں پر 41 رنز بنانے والے دو پلیسی محمد نبی کی ایک براہ راست تھرو پر رن آؤٹ ہوئے اور کچھ ہی دیر میں ڈی کوک کی 45 رنز کی اننگز امیر حمزہ کے ہاتھوں تمام ہوئی۔

یہاں ابراہم ڈی ولیئرز نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پہلی بار اپنا حقیقی "جلوہ" دکھایا۔ صرف 29 گیندوں پر 64 رنز کی طوفانی اننگز نے افغانستان کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک دیا اور جنوبی افریقہ کی اننگز کو یکدم پر لگا دیے۔ ڈی ولیئرز اور ژاں-پال دومنی کی 76 رنز کی طوفانی شراکت داری صرف 35 گیندوں پر قائم ہوئی۔ ڈی ولیئرز کی اننگز 18 ویں اوور میں مکمل ہوئی جبکہ ڈیوڈ ملر 8 گیندوں پر 19 رنز بنانے کے بعد آخری اوور میں آؤٹ ہوئے۔ دومنی 20 گیندوں پر 29 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے، جس میں آخری گیند پر لگایا گیا چھکا بھی شامل تھا۔

افغانستان کی جانب سے شاپور اور حمزہ کے علاوہ دولت زدران اور محمد نبی نے بھی ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔

ویسے 210 رنز کا ہدف افغانستان کے لیے کافی زیادہ تھا لیکن ابتدائی چار اوورز میں محمد شہزاد اور نور علی زدران نے 52 رنز کی جو دھواں دار بیٹنگ دکھائی تو اس سے کم از کم یہ ضرور ثابت ہوا کہ افغانستان مقابلہ ضرور ہارا لیکن ہمت نہیں۔ شہزاد نے صرف 19 گیندوں پر 44 رنز کی جو دھواں دار اننگز کھیلی، اس نے جنوبی افریقہ کو کتنا پریشان کیا، اس کے لیے وہ دیکھنا ہی کافی تھا کہ انہیں آؤٹ کرنے کے بعد کرس مورس نے کس طرح کا ردعمل دکھایا۔ بہرحال، کائل ایبٹ کی جانب سے پھینکے گئے اننگز کے دوسرے اوور میں تین چھکوں کی مدد سے شہزاد نے جس طرح 22 رنز لوٹے، وہ دن کا خوبصورت ترین لمحہ تھا۔

کرس مورس نے شہزادکے بعد اپنے اگلے ہی اوور میں حریف کپتان اصغر ستانکزئی کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔ اس مرحلے پر نور علی زدران اور گلبدین نائب اسکور کو گیارہویں اوور میں 105 رنز تک لے آئے یعنی کہ اسی رفتار کے ساتھ باقی اوورز میں بھی رنز بنائے جاتے تو شاید کوئی معجزہ رونما ہو جاتا لیکن گلبدین اور ان کے فوراً بعد نور علی کی وکٹیں گرنے سے افغان پیشرفت تھم گئی۔ دونوں نے بالترتیب 26 اور 25 رنز بنائے۔

محمد نبی کا تجربہ بھی جنوبی افریقہ کے بڑھتے ہوئے قدموں کو نہ روک سکا۔ وہ صرف 11 رنز اسکور کر سکے جبکہ نجیب اللہ 12 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے۔ اگلی گیند پر سمیع اللہ شنواری کی باری آئی کہ جو 14 گیندوں پر 25 رنز بنانے میں کامیاب رہے۔ جیت کی تو تمام امیدیں ختم ہو چکی تھیں بس دیکھنا یہ تھا کہ افغانستان مجموعہ کتنا اکھٹا کرتا ہے۔ آخری اوور کی آخری گیند پر آخری کھلاڑی کے آؤٹ ہونے تک اسکور بورڈ پر 172 رنز جمع ہو چکے تھے جو حوصلہ افزا کہے جا سکتے ہیں۔

جنوبی افریقہ کی طرف سے کرس مورس نے شاندار باؤلنگ کی وجہ سے جنوبی افریقہ باآسانی مقابلہ جیتا۔ انہوں نے 4 اوورز میں 27 رنز دیے اور 4 وکٹیں حاصل کیں اور آخر میں میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز بھی جیتا۔ دو،دو کھلاڑیوں کو کاگیسو رباڈا، کائل ایبٹ اور عمران طاہر نے بھی آؤٹ کیا۔

افغانستان کا اگلا مقابلہ اب 23 مارچ کو انگلستان کے ساتھ ہے کہ جس نے جنوبی افریقہ کو ہی بری طرح چت کیا تھا۔ البتہ جنوبی افریقہ کا اگلا امتحان سخت ہے۔ اسے اگلے مقابلے میں ویسٹ انڈیز سے لڑنا ہے کہ جو گروپ میں اس وقت سرفہرست ہے۔