کیا کوہلی سچن سے بھی بڑا بلے باز ہے؟ شاید ہاں!

5 1,520

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان اور آسٹریلیا کے خلاف ناقابل یقین اننگز کھیلنے کے بعد یہ سوال اٹھنا شروع ہوگیا ہے کہ کیا بلے بازی میں ویراٹ کوہلی کی صلاحیتیں سچن تنڈولکر سے بھی زیادہ ہیں؟ کیا واقعی کوہلی سچن سے بڑے بلے باز ہیں؟ یقیناً اِس سوال کا جواب آسان نہیں کیونکہ تنڈولکر کو کرکٹ تاریخ میں ایک خاص مقام حاصل ہے اور "کل کے لڑکے" کا عظیم بلے باز سے تقابل ہرگز نہیں بنتا۔ پھر بھی "رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے" کے مصداق کچھ کر ہی لیتے ہیں۔

دراصل کوہلی اور سچن، دونوں میں کئی حوالوں سے مطابقت پائی جاتی ہے۔ آج بھارت کی جیت کا دارومدار کوہلی کی کارکردگی پر ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہو رہا۔ ایک وقت تھا جب سارو گانگلی اور راہول ڈریوڈ جیسے کھلاڑیوں کی موجودگی میں سچن تنڈولکر کی فارم بھارت کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتی تھی۔ آسٹریلیا کے خلاف حالیہ مقابلے میں کوہلی کی 80 رنز کی اننگز دیکھیں تو 90ء کی دہائی یاد آ جاتی ہے جب ٹیم کے اراکین سمیت پورا بھارت فتح کے حصول کے لیے تنڈولکر کی جانب دیکھتا تھا۔ تب تنڈولکر کی وکٹ گرنے کا مطلب ہوتا تھا، بھارت کی یقینی شکست یعنی بالکل وہی کردار جو آج ویراٹ نبھا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سچن نے بھارت کے شائقین کرکٹ کے دل و دماغ میں ایسا مقام حاصل کیا جو آج تک موجود ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ 24 سال کا طویل کیریئر بھی اس کی واضح دلیل ہے کہ سچن کتنے بڑے بلے باز تھے۔

تنڈولکر کے لیے ہرگز یہ نئی بات نہیں کہ کسی بلے باز کا موازنہ ان سے کیا جا رہا ہے۔ اگر آج ویراٹ سے تقابل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو ایک زمانے میں سنیل گاوسکر سے مقابلہ کیا جاتا تھا کہ دونوں میں کون بڑا بلے باز ہے؟

گاوسکر اور تنڈولکر کا جب بھی مقابلہ ہوا اس میں یہ پہلو شامل رہا کہ دونوں نے کتنے مقابلوں میں کتنے رنز بنائے، کس نے کتنی سنچریاں بنائیں، لیکن اس معاملے پر کبھی بات نہیں ہوئی کہ دونوں نے جن گیندبازوں کا سامنا کیا ان میں کتنا فرق تھا؟ تنڈولکر نے اپنے بین الاقوامی کیریئر میں 100 سنچریاں بنائیں، جو واقعی بڑا کارنامہ ہے جو اب تک کسی دوسرے بلے باز نے نہیں انجام دیا جبکہ گاوسکر نے اپنے کیریئر میں ان سے آدھی سے بھی کم سنچریاں بنائیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گاوسکر کی 35 اور سچن کی 100 سنچریوں کا کوئی مقابلہ ہی نہیں، کیونکہ جس دور میں گاوسکر نے کرکٹ کھیلی، وہ گیندبازوں کے عروج کا زمانہ تھا جب انہیں کھل کر باؤلنگ کا اختیار حاصل ہوتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود تنڈولکر کو شائقین کرکٹ کی نظر میں زیادہ عزت ملی، اتنی کہ آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔

sachin-virat

بہتر گیندبازوں کا مقابلہ اور کمزور قوانین کا سہارا، ان کی وجہ سے سنیل گاوسکر کو ہمیشہ سچن پر فوقیت حاصل رہے گی لیکن تنڈولکر کو کوہلی کے مقابلے میں ویسی آسانیاں میسر نہیں ہوگی کیونکہ دونوں نے ایک ساتھ بھی کرکٹ کھیلی ہے اور ایسے زمانے میں جب گیندبازوں کی نسبت بیٹسمینوں کو زیادہ حمایت حاصل رہی ہے۔ پھر کوہلی نے ٹی ٹوئنٹی میں بھی مسلسل اچھی کارکردگی پیش کی ہے جو شائقین کا پسندیدہ فارمیٹ ہے۔ ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے بات کریں تو یہ ٹھیک لگتا ہے کہ کوہلی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور کارکردگی سے سچن تنڈولکر کی بادشاہت خطرے میں ہے۔

تینوں کھلاڑیوں پر ایک نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ گاوسکر کے اس ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کی مہارت زیادہ تھی، سچن ٹیسٹ کے ساتھ ساتھ ایک روزہ میں بھی ماہر تھے لیکن کوہلی ماضی کے دونوں بڑے ناموں سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ تینوں طرز یعنی ٹیسٹ، ایک روزء اور ٹی ٹوئنٹی پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ وہ ٹیسٹ کے کپتان بھی ہیں اور اس معاملے میں تو سچن سے آگے ہی ہی ہیں۔ اب تک انہوں نے 10 مقابلے کھیلے ہیں اور آدھے یعنی پانچ میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ سچن نے 24 مقابلوں میں قیادت کی ذمہ داری سرانجام دی اور صرف چار فتوحات حاصل کیں۔

جن کا خیال تھا کہ تنڈولکر کے جانے کے بعد بھارت کو سالہا سال تک ان کا متبادل نہیں ملے گا، کوہلی نے سب کو بتا دیا ہے کہ دنیا کسی کے آنے یا جانے سے نہیں رکتی، یہ آگے بڑھتی رہتی ہے اور کوہلی کی موجودگی یہ بات ثابت کررہی ہے کہ بھارت کے پاس تسلسل کے ساتھ اچھے کھلاڑی موجود ہیں۔ کوہلی نے اپنی کارکردگی سے ثابت کیا ہے کہ وہ 100 بین الاقوامی سنچریوں سمیت سچن کے وہ کئی ریکارڈ توڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن کی وجہ سے وہ 'ماسٹر' کہلاتے تھے۔