شاہد آفریدی، ہیرو جو ولن بن گیا

7 1,857

یہ ہالی ووڈ کی شہرۂ آفاق فلم 'دی ڈارک نائٹ' کا ایک ڈائیلاگ تھا کہ "یا تو تم ایک ہیرو کے طور پر ہی مر جاؤ، یا اتنا عرصہ زندہ رہو کہ خود کو ولن کے روپ میں دیکھو۔" کچھ یہی صورت حال پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی کپتان شاہد خان آفریدی کی ہے کہ وہ اس موقع کو کھو بیٹھے کہ جہاں وہ عزت سے ریٹائرمنٹ اختیار کرتے۔ اب یہ عالم ہے کہ پاکستان میں ہر جانب سے ان سے کرکٹ چھوڑنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یہ کوئی نیا مطالبہ نہیں ہے اور نہ ہی "لالا" پہلی بار ریٹائرمنٹ پر غور کررہے ہیں۔ ریٹائرمنٹ وہ کیفیت ہے جو شاہد آفریدی پر صرف تھوڑی دیر کے لیے طاری ہوتی ہے اور پھر اڑن چھو ہو جاتی ہے۔ اگر اس بار انہوں نے واقعی کرکٹ چھوڑ دی تو یہ ساتواں موقع ہوگا کہ انہوں نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا۔ پہلی بار اپریل 2006ء میں ٹیسٹ کرکٹ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ایک ماہ بعد ہی اسے واپس لے لیا۔ پھر 2010ء میں محض ایک مقابلے میں کپتانی کے بعد ان کا ذہن تبدیل ہوگیا۔ وہ انگلستان میں ادھوری سیریز چھوڑ کر ٹیسٹ کرکٹ کو الوداع کہہ گئے۔ یہی نہیں بلکہ 2011ء میں وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے رویے سے اتنے تنگ آئے کہ مکمل طور پر کرکٹ چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ پھر جلد ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ یہ فیصلہ کچھ زیادہ ہی سخت ہے۔ بہرحال 2012ء میں ایک روزہ کرکٹ میں واپسی کا اعلان کیا اور عالمی کپ 2015ء تک پھر ایسا کوئی فیصلہ نہ کیا۔ گو کہ انہوں نے ایک روزہ کرکٹ چھوڑ دی ہے لیکن ساتھ ہی اعلان کیا کہ وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء تک بین الاقوامی کرکٹ میں رہیں گے۔ ابھی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی شروع ہی نہیں ہوا تھا کہ ان کے ارادے ڈانواں ڈول ہوگئے۔ کہنے لگے کہ اہل خانہ، دوستوں اور چاہنے والوں کا شدید دباؤ ہے کہ فی الوقت ریٹائرمنٹ نہ لوں۔ اس لیے اب وہ دوست احباب، اہل خانہ اور صلاح کاروں سے مشورے کے بعد ہی مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ ہو سکتا ہے جب تک یہ الفاظ آپ تک پہنچیں، تب تک وہ اپنا ذہن بنا چکے ہوں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے اگلی سطر تک پہنچتے ہی اُن کا دماغ فیصلےکو تبدیل بھی کر چکا ہو۔

ویسے اگر شاہد آفریدی اپنے فیصلے پر قائم رہتے ہیں تو ان کے چاہنے والے ہرگز پریشان نہ ہوں، وہ دنیا بھر میں آکاس بیل کی طرح پھیل جانے والی لیگز میں بھی کہیں نہ کہیں ضرور نظر آئیں گے۔ پھر کاؤنٹی میں وہ پورے سیزن کے لیے ہمپشائر سے معاہدہ کر چکے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ سب سے زیادہ عرصے تک کرکٹ کھیلنے کا ریکارڈ حاصل کرکے ہی رخصت ہوں۔

شاہد آفریدی اب تک 98 ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں اور اب تک کوئی ایسا 'مائی کا لعل' سامنے نہیں آیا جس نے اپنے ملک کے لیے اتنے مقابلے کھیلے ہوں۔ شاہد آفریدی نے اپنے تین چوتھائی مقابلوں میں 10 سے 25 کے درمیان رنز بنائے ہیں لیکن یہ ان کا کمال ہے کہ اپنے اکثر رنز انہوں نے چوکوں اور چھکوں کی مدد سے اسکور کیے ہیں اور اسٹرائیک ریٹ کے معاملے میں صرف گلین میکس ویل ہی ان سے کچھ آگے ہیں۔ شاہد آفریدی نے 150.75 کے اسٹرائیک ریٹ سے رنز بنائے ہیں جبکہ میکس ویل کا ریٹ 153.90 ہے۔

"لالا" کے چاہنے والوں کے لیے آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گئے آخری مقابلے میں ان کی مختصر اننگز پر بات کرتے ہیں۔ اس مقابلے میں شاہد آفریدی کا آغاز نسبتاً دھیما تھا۔ ویسے گزشتہ کچھ عرصے سے وہ اکثر ایسے ہی آغاز کرتے ہیں اور ہر بار لگتا ہے کہ اب وہ سنبھل کر کھیلیں گے لیکن دوسری ہی گیند پر سارے ارمانوں پر اوس پڑ جاتی ہے۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا، تیز شاٹ کھیلتے ہوئے ایک رن لیا، یہ شاٹ اتنا تیز تھا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ گھاس کو بھسم کرتا ہوا جائے گا۔ اِس کے بعد یوں محسوس ہوا جیسے وہ آسٹریلیا کے گیند بازوں کے بارے میں سب کچھ جان گئے ہوں۔ اپنی تیسری گیند پر آفریدی نے گیند کو باؤلر کے سر کے اوپر سے چھکے کے لیے اچھال دیا۔ پھر چوتھی گیند کو چھوڑا جو باؤنسر تھی، جس پر ظاہر بھی ہو رہا تھا کہ ایسا کرتے ہوئے انہیں کتنی کوفت محسوس ہو رہی ہے۔ پانچویں گیند پر انہوں نے ایک زوردار شاٹ لگایا لیکن رن صرف ایک ہی مل سکا اور ساتھ ہی صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اپنی چھٹی گیند پر انہوں نے ایک کرارا چھکا رسید کیا اور ساتویں پر بھی یہی ارادہ تھا لیکن آؤٹ ہوگئے۔

صرف سات گیندوں کی اس اننگز میں شاہد آفریدی نے ہر وہ شاٹ کھیلا، جو عموماً کھلاڑی طویل اننگز میں کھیلتے ہیں۔ سنبھل کر آغاز کرنا، پھر چالاکی سے کچھ رنز بنانا اور ایک دم چھکا لگا کر وکٹ پر چھا جانا اور آخر میں ایک غلطی کے بعد آؤٹ ہوجانا، یہ سب آفریدی کا پرانا انداز ہے۔

لیکن ذرا ٹھیریں، پیچ و تاب مت کھائیں۔ شاہد آفریدی ہر بار ناکام نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی وہ 20 رنز سے بڑی اننگز بھی کھیل لیتے ہیں اور جب شائقین بہت زیادہ بے تاب ہوں تو ان کی دلجوئی کے لیے 30 رنز بھی بنا لیتے ہیں۔ آخری دو سالوں میں شاہد نے 25 رنز سے بڑی اننگز دو مرتبہ کھیلی ہیں۔ سری لنکا کے خلاف 45 رنز اور پھر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بنگلہ دیش کے مقابلے میں 49 رنز۔ اپنے 10 سالہ ٹی ٹوئنٹی کیریئر میں ان کی سب سے بڑی انفرادی اننگز 54 رنز کی ہے۔ لیکن اب بھی چند لوگ اسی امید پر زندہ ہیں کہ لالا مستقبل میں بھی "ایسی" کارکردگی دہرا سکتے ہیں۔ گو کہ بہت سے پاکستانی شائقین اب ایسے بھی نظر آ جاتے ہیں جنہوں نے مسلسل خراب کارکردگی اور قیادت کے انداز کی وجہ سے شاہد آفریدی پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے، لیکن اب بھی بڑی اکثریت انہی کی ہے جو امید لگائے بیٹھے ہیں۔ شاہد آفریدی بھی یہ بات جانتے ہیں کہ لوگ اب بھی انہیں چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ ان کی اصل طاقت عوام ہیں، جنہوں نے ہر اچھے برے وقت میں ان کا ساتھ دیا ہے۔

کچھ لوگ ایسے ہیں جو نہ شاہد سے نفرت کرتے ہیں، اور نہ ہی دیوانہ وار محبت۔ وہ بس انہیں ایک دل بہلانے والا کھلاڑی سمجھتے ہیں، جو وہ وکٹ پر آتا ہے، آٹھ دس گیندیں کھیلتا ہے، گیند کو دو، تین بار فضا میں اچھالتا ہے، ایک، دو چھکے بھی لگا لیتا ہے اور پھر ایسی ہی کسی گیند پر کیچ تھما کر واپسی کی راہ پکڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاہد آفریدی ایک 'جنون' ہے، 'بے پروائی' کی ایک مثال ہے، 'غیر ذمہ داری' کی ایک انتہا ہے یعنی ان میں ہر وہ عنصر پایا جاتا ہے جوکسی نوعمر کھلنڈرے نوجوان میں ہوتا ہے اور شاید یہی ان کی مقبولیت کا "راز" ہے کیونکہ ہر پاکستانی نوجوان کو شاہد کے اندر اپنا عکس دکھائی دیتا ہے۔

ہر گیند کو میدان سے باہر پھینکنے کا جنون شاہد آفریدی کے پورے کیریئر کو تباہ کرگیا، لیکن دیوانے عوام انہیں اکساتے رہے، اس لیےلالا بھی آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ 20 سال کرکٹ کھیل گئے۔

اب معاملہ عوام کی عدالت میں ہے۔ لوگ اب بھی شاہد آفریدی کو اسی طرح کھیلتے دیکھنا چاہتے ہیں یا وہ سمجھتے ہیں کہ کرکٹ 'تفریح' سے زیادہ اب سنجیدہ کھیل بن چکا ہے، جہاں بلے بازوں کا کمال یہ نہیں کہ وہ آٹھ، دس گیندوں پر دو تین چھکے لگائیں اور بغل میں بلّا دبائے واپس آ جائیں، بلکہ وکٹ پر ٹھیر کر زیادہ سے رنز بنائیں اور جیت کے لیے اپنی مکمل صلاحیتیں استعمال کریں۔

Shahid-Afridi2