مصباح الحق ناقدین کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کے لیے تیار

5 1,044

کرکٹ نے انگلستان کی سرزمین پر جنم لیا، یعنی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کرکٹ انگریزوں کے خون میں کہیں زیادہ رچا بسا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے تمام ہی ممالک کے لیے انگلستان کو فتح کرنا ہمیشہ مشکل رہا ہے۔ پاکستان نے آخری بار انگلستان کے دورے میں ٹیسٹ سیریز میں جیتی تھی اور آخری دونوں دورے انتہائی متنازع انداز میں تمام ہوئے۔ 2006ء کا اوول تنازع کہ جس میں پاکستان نے بال ٹمپرنگ یعنی گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے الزام کے بعد کھیلنے سے انکار کردیا تھا اور انگلستان کو کامیاب قرار دے دیا گیا اور پھر 2010ء میں اسپاٹ فکسنگ جیسا بڑا سانحہ رونما ہوا جس نے پاکستان کرکٹ کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ ان دوروں نے پاکستان کرکٹ پر سنگین اثرات مرتب کیے۔ 2006ء کے دورۂ انگلستان میں ناکامی کے بعد پاکستان کرکٹ کو بہت بڑا زوال آیا اور وہ عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر سے گرتے گرتے کہیں نیچے چلا گیا اور 2010ء کے بعد تو لگتا تھا کہ پاکستان سے کرکٹ ہی ختم ہو جائے گی۔ ان پے در پے واقعات کے بعد پاکستان کو ضرورت تھی ایک ٹھنڈے مزاج کے کپتان کی، جو پاکستان کرکٹ کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگا سکے اور یہ صلاحیتیں مصباح الحق میں دیکھی گئیں۔

مصباح الحق نے اپنے کیریئر کا آغاز تو 2001ء میں کیا تھا لیکن وہ یہ اپنی جگہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکے اور جلد ہی بھولی بسری داستان بن گئے۔ لیکن 2007ء کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی نے مصباح کو نئی زندگی عطا کی، اگر انہیں اس ٹورنامنٹ کی 'دریافت' کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ ان کے بلند و بالا چھکوں اور 'مرد بحران' کے کردار نے عالمی شہرت حاصل کی، لیکن "صرف ایک شاٹ" نے انہیں "محرم سے مجرم" بنا دیا۔ مصباح فائنل میں بھارت پر حتمی ضرب نہ لگا سکے اور پاکستان عالمی چیمپئن نہ بن سکا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر قصہ پارینہ بننے لگے یہاں تک کہ 2010ء میں انگلستان کے دورے پر اسپاٹ فکسنگ کا واقعہ رونما ہوا۔

پاکستان کے کپتان سلمان بٹ اور دو اہم ترین گیندباز محمد آصف اور محمد عامر کو پانچ، پانچ سال کی پابندیوں کی سزا سنائی گئی اور ساتھ ہی برطانیہ میں قید بھی بھگتنا پڑی۔ جگ ہنسائی کے بعد پاکستان کو ضرورت تھی ایک ایسے کپتان جو پاکستان کرکٹ کے تنِ مردہ میں نئی روح پھونک سکے اور یہ مشکل ترین کام سونپا گیا 36 سالہ مصباح الحق کو، جن کے بارے میں سمجھا جا رہا تھا کہ اب ان کی کرکٹ ختم ہو چکی ہے۔

دنیا بھر میں کئی "دیواریں" مشہور ہیں۔ ایک دیوارِ برلن ہوا کرتی تھی، ایک عظیم دیوارِ چین ہے، پھر دنیائے کرکٹ کی "دیوارِ ہند" یعنی راہول ڈریوڈ تھے، لیکن گزشتہ پانچ، سالوں میں "دیوارٰ پاکستان" نے بھی شہرت حاصل کی۔ دنیا کے تمام ہی گیندباز جانتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ کھیلتے ہوئے اگر مصباح کو آؤٹ کردیا تو باقیوں کو ٹھکانے لگانا کوئی مسئلہ نہیں۔

Misbah-ul-Haq2

ٹی ٹوئنٹی میں 37، ایک روزہ میں 43 اور ٹیسٹ میں تقریباً 49 کا اوسط رکھنے والے مصباح تمام طرز کی کرکٹ کے یکساں نمایاں بلے باز ہیں۔ گو کہ ان کی اہمیت، صلاحیت اور قربانی کی وہ قدر نہیں کی گئی، جو کرنی چاہیے تھی۔ پاکستان کی ہر کامیابی کو دوسرے کھلاڑیوں کے کھاتے میں ڈالا گیا اور ہر ناکامی کو مصباح الحق کے گلے کا طوق بنایا گیا اور بدقسمتی سے اس کام میں ہمارا ذرائع ابلاغ سب سے آگے رہا۔ 20 سے 30 کا اوسط رکھنے والے "سپر اسٹار" بنے پھرتے رہے اور مصباح الحق اپنے ناکردہ جرائم پر صفائیاں دیتے دکھائی دیے۔ کیوں؟ پاکستان میں معاملہ سیاست کا ہو یا کھیل کا، بڑ بولے سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں یا کم از کم "میڈیا کوریج" خوب حاصل کرتے ہیں۔ گز گز بھر کی زبانیں رکھنے والوں کے سامنے مصباح جیسے نرم مزاج لوگوں کا کیا کام؟ یہی وجہ ہے کہ جب عالمی کپ 2015ء کے بعد مصباح نے ایک روزہ کرکٹ چھوڑ دی تو کئی حلقوں نے "شکرانے کے نوافل" پڑھے ہوں گے، لیکن انہیں کف افسوس ملنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ پاکستان، جس نے تاریخ میں بنگلہ دیش سے صرف ایک میچ ہارا تھا، مصباح کے بعد پہلے ہی دورے میں تین-صفر سے ون ڈے سیریز ہارا۔ اب پاکستان ایک روزہ کی عالمی درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ ایک طرف جہاں مصباح الحق کو ہمارا ذرائع ابلاغ ملک کا غیر مقبول اور ناپسندیدہ ترین کھلاڑی ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا، بیرون ملک مصباح کی قدر و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2015ء میں برطانیہ کے معروف روزنامے ٹیلی گراف نے مصباح کو دنیا کا بہترین ٹیسٹ کپتان قرار دیا۔

بہرحال، اب مصباح کو "ایک اور دریا" کا سامنا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ دورۂ انگلستان ان کی آخری جست ہو۔ مصباح اپنے طویل کیریئر میں پہلی اور آخری بار انگلستان جا رہے ہیں۔

انگلستان کا دورہ پاکستان کے ساتھ ساتھ خود مصباح الحق کے لیے بہت اہم ہے۔ جس جگہ پر پاکستان کرکٹ کا شیرازہ بکھرا تھا، اور انہیں اسے سمیٹنے جیسا مشکل کام سونپا گیا تھا، اسی جگہ مصباح خود کو ثابت کرنے جا رہے ہیں۔ 14 جولائی کو لارڈز کے اسی میدان پر پہلا ٹیسٹ کھیلا جائے گا جہاں آخری بار ہم نے پاکستانی کھلاڑیوں کے لٹکے ہوئے چہرے دیکھے تھے۔

بلاشبہ، مصباح میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو انگلستان کے دورے پر ایک تاریخی کامیابی حاصل کرنے کے لیے درکار ہیں۔ لیکن یونس خان کے ساتھ ساتھ اظہر علی اور اسد شفیق کو ان کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا۔ ماضی قریب میں ان تمام بلے بازوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں بہت عمدہ کارکردگی دکھائی ہے یہاں تک کہ انگلستان کو دو مرتبہ متحدہ عرب امارات میں ٹیسٹ سیریز ہرائی ہیں۔ اس لیے ایک اچھے مقابلے کی توقع کرنی چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ مصباح اپنے ناقدین کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دیں۔ اور کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر پاکستان یہ سیریز جیت گیا تو ہو سکتا ہے کہ عالمی درجہ بندی میں نمبر ایک بن جائے۔