فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں پر تاحیات پابندی لگنی چاہیے: محمد عامر

0 1,037

اگست 2010ء کے اختتامی ایام میں پاک-انگلستان ٹیسٹ سیریز کا چوتھا و آخری مقابلہ لارڈز میں کھیلا جا رہا تھا۔ پہلے دن کا کھیل بارش اور کم روشنی کی وجہ سے متاثر ہونے کے بعد جب دوسرے روز آغاز ہوا تو دنیا نے 18 سالہ محمد عامر کا جادوئی باؤلنگ اسپیل دیکھا۔ کھانے کے وقفے تک انگلستان 97 رنز تک پانچ بلے بازوں سے محروم ہو چکا تھا جن میں ایلسٹر کک کو آؤٹ کرنے کے بعد عامر نے کیون پیٹرسن، پال کولنگ ووڈ اور ایون مورگن تینوں کو صفر کی ہزیمت سے دوچار کیا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ یہ عامر کا بین الاقوامی کرکٹ میں "آخری جلوہ" تھا۔ اگلے ہی روز برطانیہ کے اخبار "نیوز آف دی ورلڈ" نے پاکستان کے کپتان سلمان بٹ اور گیند بازوں محمد عامر اور محمد آصف کے بارے میں انکشاف کیا کہ انہوں نے ایک سٹے باز مظہر مجید سے رقم کے عوض میچ میں جان بوجھ کر نو بالز پھینکی ہیں۔ پھر تینوں کھلاڑیوں پر پانچ، پانچ سال کی پابندیاں لگیں یہاں تک کہ قید کی سزائیں تک کاٹیں۔ ایسا لگتا تھا کہ دنیا جس گیند باز کو "نیا وسیم اکرم" قرار دے رہی تھی، اب کبھی نہیں کھیل پائے گا۔

لیکن محمد عامر ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی کرکٹ میں واپس آ چکے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اگلے مہینے اپنی "دوسری زندگی" کا پہلا ٹیسٹ لارڈز کے اسی میدان پر کھیلیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں پانچ سالہ پابندی کے خاتمے کے بعد عامر متعدد ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی کھیل چکے ہیں لیکن یہ دراصل ٹیسٹ کرکٹ ہے، جس پر ان کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ محمد عامر نے یہاں اپنے آخری ٹیسٹ میں 84 رنز دے کر 6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا اور اپنے کیریئر کی بہترین کارکردگی دکھائی تھی۔

اب ایک مرتبہ پھر لارڈز کا میدان ہے، انگلستان ہے اور محمد عامر ہوں گے، جو کہتے ہیں کہ "اگر دیانت داری سے پوچھا جائے تو میں نے کبھی کرکٹ میں واپسی کا سوچا بھی نہیں تھا۔ میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ ایک مرتبہ پھر ٹیسٹ کرکٹ کھیلوں گا۔ آپ اتفاق کریں یا نہ کریں، لیکن میں اسے ایک رحمت سمجھتا ہوں کہ مجھے بالکل وہیں سے اپنا سفر دوبارہ شروع کرنے کا موقع مل رہا ہے، جہاں 2010ء میں یہ رکا تھا۔ بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی تو کئی مہینے پہلے ہوگئي تھی لیکن میں ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کو اپنا اصل 'کم بیک' سمجھتا ہوں۔"

محمد عامر نے اپنے صرف 14 ٹیسٹ مقابلوں پر مشتمل کیریئر میں ہی خود کو مستقبل کا خطرناک کھلاڑی ثابت کردیا تھا۔ 29 کے اوسط سے 51 وکٹیں ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جو انہوں نے سری لنکا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور انگلستان جیسے مضبوط حریفوں کے خلاف حاصل کی تھیں۔ محمد عامر کو اندازہ ہے کہ ان کے کتنے قیمتی سال ضائع ہوئے ہیں، کہتے ہیں کہ "میں نے اپنی زندگی کے پانچ بہترین سال گنوائے ہیں اور اگر میں کرکٹ کھیلتا رہتا تو نجانے کہ آج کس مقام پر ہوتا۔ میں 2010ء کو بھولا نہیں ہوں میں ایک بہتر مستقبل کے ذریعے اپنے ماضی کو مٹانا چاہتا ہوں۔"

چند روز قبل انگلستان کے کپتان ایلسٹر کک نے کہا تھا کہ انہیں محمد عامر کا سامنا کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کو سخت سزا دی جائے اور تاحیات پابندی کا نشانہ بنایا جائے۔ محمد عامر نے کک کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ "اگر کوئی بھی ہمارے واقعے سے سبق نہیں سیکھتا تو اس سے بڑا بے وقوف کوئی اور نہیں۔ کرکٹ میں بدعنوانی کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے اور جو بھی ایسا کرے، اس پر تاحیات پابندی لگنی چاہیے۔"

انگلستان کے خلاف 14 جولائی سے سیریز کے باضابطہ آغاز سے قبل پاکستان 3 جولائی سے سمرسیٹ اور 8 جولائی سے سسیکس کے خلاف دو ٹور میچز کھیلے گا۔