آئی سی سی کا اجلاس، بین الاقوامی کرکٹ میں بڑی تبدیلیاں متوقع

1 1,207

کل سے کرکٹ کے عالمی رہنماؤں کا ایک اہم ترین اجلاس اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا میں شروع ہو رہا ہے اور اس میں ہونے والے فیصلے کرکٹ کا منظرنامہ تبدیل کر سکتے ہیں۔ 105 مکمل، ایسوسی ایٹ اور ایفیلیٹ اراکین کے 150 نمائندگان اس چھ روزہ اجلاس میں شرکت کریں گے جس کے ایجنڈے پر بہت اہم معاملات شامل ہیں۔

زیر غور تجاویز میں سب سے اہم ٹیسٹ کرکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ہوگا۔ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے پہلے ڈویژن میں درجہ بندی کی اولین سات ٹیمیں شامل ہوں گی جبکہ دوسرے حصے میں پانچ ٹیموں کو شامل کیا جائے گا یعنی کہ دو مزید ٹیمیں ٹیسٹ دائرے میں داخل ہو سکتی ہیں جو یقینی طور پر بین الاقوامی کرکٹ کے فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ آئی سی سی انٹرکانٹی نینٹل کپ کی دو سرفہرست ٹیمیں ہوں گی۔ یوں دو طرفہ سیریز میں جب ڈویژنز میں ترقی اور تنزلی بھی داؤ پر ہوگی تو ٹیسٹ میں دلچسپی مزید بڑھے گی۔ 2019ء کے بعد دو یا چار سالوں کے عرصے پر محیط اس ٹیسٹ چیمپئن شپ کا اختتام سرفہرست دو ٹیموں کے درمیان لارڈز جیسے تاریخی میدان پر فائنل سے ہوگا۔

ایسی ہی کچھ تجاویز ایک روزہ کرکٹ کے حوالے سے بھی ہیں جو اس وقت ٹیسٹ جیسی روایتی اور ٹی ٹوئنٹی جیسی مقبول کرکٹ کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہے۔ اس کے لیے 13 رکنی بین الاقوامی لیگ کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس مجوزہ نظام کے تحت ایک روزہ کھیلنے والی تمام ٹیموں کو تین سالوں میں ایک دوسرے سے کم از کم ایک سیریز ضرور کھیلنا ہوگی۔ مخصوص عرصے کے بعد دو ٹاپ ٹیمیں فائنل کھیلیں گی جبکہ سب سے نچلی ٹیم آئی سی سی ورلڈ کرکٹ لیگ میں تنزلی پائے گی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ آئرلینڈ اور افغانستان جیسے ممالک کو پہنچے گا جنہیں بڑی ٹیموں کے خلاف یقینی مقابلے کھیلنے کو ملیں گے۔ اس صورت میں چیمپئنز ٹرافی ایک مرتبہ پھر خطرے میں پڑ گئی ہے جو 2013ء میں آخری مرتبہ کھیلی گئی تھی لیکن نشریات کاروں کے دباؤ اور مقبولیت کی وجہ سے 2017ء میں دوبارہ کھیلی جائے گی۔

cricket-balls

اب چلتے ہیں ٹی ٹوئنٹی کی طرف 2016ء میں بھارت میں ہونے والا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ایک بڑی کامیابی تھا لیکن مقامی ٹی ٹوئنٹی لیگز کی جانب سے درپیش چیلنج مجبور کر رہا ہے کہ دو کے بجائے چار سال کا وقفہ دینے پر دوبارہ غور کیا جائے۔ پہلے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ہر دو سال بعد کھیلا جاتا تھا لیکن اب اس وقفے کو چار سال کر دیا گیا ہے۔ یوں اگلا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2020ء میں آسٹریلیا میں ہوگا۔ لیکن اجلاس میں طے کیا جائے گا کہ 2018ء اور 2022ء میں بھی یہ ٹورنامنٹ کھیلا جائے یا نہیں۔ ویسے 2017ء میں چیمپئنز ٹرافی کے خاتمے سے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا انعقاد مزید آسان ہو جائے گا۔

دیگر تجاویز میں ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کے علاوہ فیصلوں پر نظرثانی کے نظام (ڈی آر ایس) کے حوالے سے اہم باتیں بھی شامل ہیں۔ تجویز ہے کہ ایل بی ڈبلیو کے فیصلوں میں رائے امپائر کے حق میں گیند کے 25 فیصد پر لاگو ہونی چاہیے، جو اس وقت گیند کے 50 فیصد حصے پر ہوتی ہے۔

دو سال قبل "بگ تھری" کے معاملے نے دنیائے کرکٹ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ آئی سی سی کے کل 105 اراکین میں سے 102 کی آمدنی ایک طرف اور بھارت، آسٹریلیا اور انگلستان جیسے تین بڑے ممالک "بگ تھری" کی آمدنی دوسری طرف۔ اس غیر منصفانہ نظام پر عالمی کرکٹ نے سخت ردعمل دکھایا تھا لیکن دھونس، لالچ اور دھمکیوں کی بنیاد پر کسی نہ کسی طرح اسے عالمی قانون بنا دیا گیا۔ اس کے تحت بین الاقوامی کرکٹ کے مالی و دیگر معاملات پر ان تینوں ممالک کو حد سے زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی۔ اب اس اجلاس میں بگ تھری معاملے پر بھی اہم پیشرفت کا امکان ہے۔ بھارت کے کرکٹ بورڈ سربراہ شاشنک منوہر نے گزشتہ سال اس نظام کو "سراسر بدمعاشی" قرار دیا تھا اور موجودہ عہدہ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے بجائے مستقل نمائندے کے استعفیٰ دے کر جمہوری طریقے سے انتخاب کی راہ اختیار کی۔

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگلا ہفتہ بین الاقوامی کرکٹ کے لیے بہت بہت زیادہ اہم ہے۔