لارڈز پر مصباح کا راج

1 1,039

جب پاکستان کے کھلاڑیوں نے آخری بار لارڈز کے میدان پر قدم رکھا تھا تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ انہیں انگاروں پر ننگے پیر چلنے کا حکم دیا گیا ہے۔ وجہ تھی 'نیوز آف دی ورلڈ' کی وہ تہلکہ خیز خبر کہ جس نے پاکستان کے کپتان سلمان بٹ اور دونوں مرکزی گیندباز محمد آصف اور محمد عامر کے پیروں تلے سے زمین نکال دی تھی۔ تینوں کے چہرے ہی جرم کی داستان بیان کرنے کے لیے کافی تھے۔مرےہوئے قدموں کےساتھ پاکستانی کھلاڑی دوسری اننگز کھیلنے کے لیے میدان میں اترتے رہے، آؤٹ ہوتے رہے اور سر جھکا کر واپس آتے رہے۔ نہ جیتنے کی خوشی دکھائی دے رہی تھی، نہ ہی شکست کا غم تھا، طوفان سے قبل کی ایک خاموشی تھی جو میچ مکمل ہونے کے بعد ٹوٹی اور ان تینوں کھلاڑیوں پر پانچ، پانچ سال کی بھاری پابندی کے ساتھ منطقی انجام کو پہنچی۔ ایسا لگتا تھا کہ پاکستان کرکٹ کے تابوت میں یہ آخری کیل تھی جو لگا دی گئی ہے اور لارڈز پاکستان کا قبرستان بن جائے گا۔ آج ایک مرتبہ پھر "کرکٹ کے گھر" یعنی لارڈز ہی میں پاکستان ایک مرتبہ پھر کھیلا۔ چھ سال میں کافی پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے لیکن اسپاٹ فکسنگ والا زخم اب بھی تازہ ہے اور اگر نہیں بھی تھا تو انگلش نے اسے کافی حد تک تازہ کردیا ہے۔ یہی جواب دینے کا وقت ہے اور انگریزی مقولے "پہلا تاثر، حتمی تاثر"کو لاگو کریں تو پاکستان نے 6 وکٹوں پر 282 رنز بنا کر اچھا جواب دیا ہے، خاص طور پر مصباح الحق نے اس "طویل عمری" میں جس طرح ناقابل شکست سنچری بنائی ہے بلکہ تہرے ہندسے میں پہنچنے کے بعد دس 'پش اپ' بھی لگائے ہیں، انہوں نے یہ عیاں کردیا ہے کہ پاکستان مثبت ذہن کے ساتھ میدان میں اترا ہے اور اسے آسان سمجھنا انگلستان کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔

مصباح الحق نے اپنی دسویں ٹیسٹ سنچری 42 سال اور 47 دن کی عمر میں بنائی ہے اور یوں وہ چھٹے عمر رسیدہ ترین کھلاڑی بن گئے ہیں جنہوں نے تہرا ہندسہ عبور کیا۔ یہ مصباح کا نہ صرف لارڈز بلکہ انگلستان میں بھی پہلا ٹیسٹ تھا۔ گو کہ ان کی قیادت میں پاکستان کبھی انگلستان سے کوئی ٹیسٹ نہیں ہارا، لیکن پہلے تمام مقابلے متحدہ عرب امارات میں کھیلے گئے اور یہ سیریز مصباح کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے جس کے پہلے قدم پر مصباح نے خود کو ثابت کیا ہے۔

پاکستان کے اوپنرز کی "ایک اور ناکامی" کے بعد بوجھ ایک مرتبہ پھر تجربہ کار مصباح اور یونس خان پر منتقل ہوگیا۔ 77 رنز پر تین وکٹیں گرنے کے بعد کہ جن میں ان فارم اظہر علی بھی شامل تھے، دونوں "بزرگوں" نے 57 رنز کا اضافہ کرکے میدان سنبھالنے کی کوشش کی۔ اظہر کو تو کسی حد تک بدقسمت کہا جا سکتا ہے لیکن یونس کو ہرگز اتنی جلدی آؤٹ نہیں ہونا چاہیے۔ جب وہ 33 رنز بنانے کے بعد معین علی کو کیچ تھما گئے تو اسکور بورڈ پر صرف 134رنز موجود تھے اور آخری مستند بلے باز اسد شفیق میدان میں آئے۔ مصباح اور اسد نے 148 رنز کی بہترین رفاقت قائم کی اور پرانی گیند سے خوب رنز لوٹے۔

دن کا سب سے خوبصورت لمحہ وہ تھا جب مصباح نے 154 گیندوں پر اپنی سنچری مکمل کی۔ انہوں نے پہلے بلّے کو ہوا میں لہرایا اور پھر ہیلمٹ اور دستانے اتار کر ان فوجی تربیت کاروں کو سلیوٹ پیش کیا کہ جنہوں نے انگلستان آنے سے قبل ایبٹ آباد میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو تربیت دی تھی۔ ساتھ ہی وہ شرط بھی پوری کی، جو ان سے لگائی تھی کہ انگلستان میں سنچری بنانے کے بعد وہ دس 'پش اپ' لگائیں گے۔ مصباح کی اس "حرکت" پر میدان میں خوب تالیاں بجیں اور سب بہت محظوظ ہوئے۔

مصباح اور اسد نے بالخصوص اسپن گیندباز معین علی کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کے 7 اوورز ہی میں 46 رنز حاصل کیے جن میں ایک اوور میں بنائے گئے 16 رنز بھی شامل تھے۔ ان کے علاوہ اسٹیون فن کو بھی بگڑی ہوئی لائن کی کافی سزا ملی۔ ان کو 21 اوورز میں 86 رنز مارے گئے۔ البتہ کرس ووکس نے بہت عمدہ باؤلنگ کی۔ 18 اوورز میں 45 رنز دے کر انہوں نے چار وکٹیں حاصل کیں جن میں دونوں اوپنرز کے بعد اسد شفیق کی قیمتی وکٹ بھی شامل تھی۔ اسد نے 130 گیندوں پر 73 رنز بنائے اور وکٹوں کے پیچھے کیچ دے گئے۔ آخر میں نائٹ واچ مین راحت علی کو بھی دن کی آخری گیند پر آؤٹ کیا۔

6 وکٹوں پر 282 رنز بہت عمدہ مجموعہ تو نہیں ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ آخری لمحات میں دو وکٹیں گر جانا مقابلے کو برابری کی سطح پر لے آیا ہے۔ اگر دوسرے دن صبح کے سیشن میں مصباح الحق اور نئے آنے والے بلے باز سرفراز احمد اچھی طرح کھیل گئے تو پاکستان کے بڑے مجموعے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ خیر، کل کی کل دیکھیں گے، فی الحال تو دنیا مصباح کی تاریخی اننگز کا لطف اٹھا رہی ہے۔

Misbah-ul-Haq