نکلتی ہوئی بازی پھر ہاتھ آ گئی، لارڈز میں پاکستان کا غلبہ

1 1,025

پاک-انگلستان پہلے ٹیسٹ کا ابتدائی دن تو مصباح الحق کی وجہ سے پاکستان کے نام رہا لیکن دوسرے روز کے پہلے ہی سیشن میں انگلستان کے شاندار جوابی حملے نے پاکستان کو ہکا بکا کردیا۔ صرف 57 رنز کے اضافے پر پاکستان کی باقی چاروں وکٹیں گرگئیں اور یوں اسے 339 رنز کے توقعات سے کہیں چھوٹے مجموعے تک محدود ہونا پڑا۔ کہاں پاکستان کی نظریں 400 رنز پر تھیں اور کہاں یہ مجموعہ؟جواب میں انگلستان جب صرف ایک وکٹ پر 118 رنز تک پہنچ گیا تو پریشان کن مرحلہ شروع ہوچکا تھالیکن یاسر شاہ نے بہترین گیندبازی کا مظاہرہ کرکے پاکستان کو لارڈز میں غالب مقام پر پہنچا دیا ہے۔ دوسرے روز کھیل ختم ہونےتک پاکستان انگلستان کی 7 وکٹیں حاصل کرچکاہے اور اب بھی اسے 86 رنز کی برتری حاصل ہے۔

پاکستان نے دن کا آغاز مصباح الحق اور سرفراز احمد کے ساتھ کیا لیکن سرفراز کی جلد بازی نے وکٹ دینے میں زیادہ وقت نہیں لگایا۔ ان کا بھرپور شاٹ سیدھا پوائنٹ پر کھڑے جیمز ونس کے ہاتھوں میں گیا تو ایک اینڈ مکمل طور پر غیر محفوظ ہوگیا۔ ووکس نے اسی اوور کا اختتام برق رفتار یارکر کے ذریعے وہاب ریاض کی وکٹیں بکھیر کر کیا۔ کچھ ہی دیر میں مصباح الحق اسٹورٹ براڈ کی گیند پر کلین بولڈ ہوئے۔ ان کی اننگز 199 گیندوں پر 114 رنز کے ساتھ مکمل ہوئے جس میں 18 چوکے بھی شامل تھے۔ آخری وکٹ پر راحت علی اور محمد عامر نے 23 رنز کا اضافہ کیا اور یوں پاکستانی اننگز 339 رنز پر تمام ہوئی۔

انگلستان کی جانب سے کرس ووکس نے دوسرے روز بھی اپنی شاندار باؤلنگ جاری رکھی اور مزید دو شکار کرکے وکٹوں کی تعداد چھ کرلی۔ 70 رنز دے کر 6 وکٹیں ووکس کی بہترین ٹیسٹ باؤلنگ ہے۔ مصباح الحق کی قیمتی وکٹ سمیت مزید دو شکار اسٹورٹ براڈ کو بھی ملے کہ جن کی وکٹیں تین رہیں۔

پہلے ہی سیشن میں پاکستانی اننگز کا قصہ تمام کرنے کے بعد انگلستان کے ٹوٹتے ہوئے حوصلے مجتمع ہو چکے تھے اور وہ اس تاریخی لمحے کا سامنا کرنے کو مکمل طور پر تیار تھا جس کا دنیا کو انتظار تھا، یعنی محمد عامر کی "نئی زندگی" میں پہلی ٹیسٹ گیند۔ جب عامر نے اپنی پہلی گیند پھینکی تو میدان کے ایک کونے سے منچلوں کی جانب سے "نو-بال" کی صدا ضرور بلند ہوئی لیکن مجموعی طور پر لارڈز کا ماحول پر سکون رہا۔ دوسرے اوور میں راحت علی نے ایلکس ہیلز کی وکٹ حاصل کی لیکن اس کے بعد کھانے کے وقفے تک ایلسٹر کک اور جو روٹ نے ناک پر مکھی بھی نہ بیٹھنے دی۔ پہلا سیشن مکمل ہوا تو انگلستان صرف 11 اوورز میں 64 رنز بنا چکا تھا۔ اس میں کک کو ملنے والی ایک زندگی بھی شامل تھی جب حفیظ نے عامر کی گیند پر پہلی سلپ میں ایک آسان کیچ چھوڑا جب وہ صرف 22 رنز پر کھیل رہے تھے۔ یہی "کارنامہ" پاکستان نے بعد میں بھی انجام دیا۔ 55 کے انفرادی اسکور پر پہنچنے کے بعد سرفراز احمد نے بھی محمد عامر کو اپنی "پہلی" وکٹ سے محروم رکھا۔ یہ بھی ایک آسان کیچ تھا کہ جو عام طور پر پکڑے جاتے ہیں۔ کک دو زندگیاں ملنے کے باوجود سنچری مکمل نہ کر سکے اور بالآخر اپنے منطقی انجام کو پہنچے، یعنی عامر ہی کی وکٹ بنے۔ لیکن دوسرے اینڈ سے یاسر شاہ نے تہلکہ مچا رکھا تھا۔

جب کک اور روٹ کی شراکت داری 118 رنز تک پہنچی تو یاسر کی گیند پر روٹ کے غیر ذمہ دارانہ شاٹ نے پاکستان کو روشنی کی کرن دکھائی۔ وہ ایک آسان کیچ دے گئے اور پھر انگلستان کی اننگز بکھرتی چلی گئی۔ یاسر نے کچھ ہی دیر میں جیمز ونس اور گیری بیلنس کو ایل بی ڈبلیو کرکے پویلین واپس بھیج دیا۔ کک محمد عامر کی گیند کو اس وقت اپنی ہی وکٹوں میں کھیل گئے جب مجموعہ 173 تھا۔ انگلستان کے حوصلے جواب دینے لگے، ان میں یاسر شاہ کے حملوں کی تاب نہیں رہی تھی۔ جانی بیئرسٹو یاسر کی ایک گیند کو پچھلے قدموں پر کٹ کھیلنے گئے اور کلین بولڈ ہوئے اور پھر معین علی کی باری آئی جو ایل بی ڈبلیو ہوئے۔ دوسرے دن کے کھیل کے اختتام پر انگلستان کا مجموعہ 7 وکٹوں پر 253 رنز ہے اور کرس ووکس 31 اور اسٹورٹ براڈ 11 رنز کے ساتھ کریز پر موجود ہیں۔

جس طرح مصباح نے پہلے دن میلہ لوٹا، اسی طرح دوسرا دن یاسر شاہ کے نام رہا۔ ایک ایسے موقع پر جب پاکستانی گیند باز بری طرح پٹ رہے تھے، وہ آئے اور 25 اوورز میں صرف 64 رنز دے کر پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ لارڈز کی اس وکٹ پر اسپن گیندبازوں کے لیے مدد بھی بہت کم ہے۔ پہلے روز جو معین علی کا حال ہوا تھا، اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ عام طور پر بھی لارڈز کی وکٹ اسپنرز کے لیے اتنی مددگار نہيں ہوتی۔ یہ 20 سال بعد پہلا موقع ہے کہ کسی لیگ اسپنر نے لارڈز میں اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کی ہوں۔ پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایشیا سے باہر یاسر شاہ کا پہلا ٹیسٹ بھی ہے۔ اگر پاکستانی فیلڈرز انگلستان کے نمایاں ترین گیندباز ایلسٹر کک کے دو کیچ نہ چھوڑتے تو صورت حال اور مختلف ہوتی۔ بہرحال، لارڈز ٹیسٹ پر اب بھی پاکستان کی گرفت مضبوط ہے اور انگلستان کی نظریں اس کی برتری کو کم سے کم کرنے پر لگی ہوئی ہیں۔