پاکستان کی تاریخ کے بہترین اسپن گیندباز

0 1,245

پاکستان تیز گیند بازوں کے حوالے سے ہمیشہ خود کفیل رہا ہے۔ وہ دور ایسا نہیں گزرا جب پاکستان کے پاس کم از کم ایک ایسا تیز باؤلر نہ ہو، جسے عالمی معیار کے گیند بازوں میں شمار نہ کیا جاتا ہو لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان نے اسپن گیند بازی میں بھی بہت بڑے نام دنیا کو پیش کیے ہیں۔ ان 'جادوگروں' کے کمالات نے ایک عالم کو حیران کیے رکھا اور آجکل جس طرح یاسر شاہ کی دھوم مچی ہوئی ہے، ویسے ہی ماضی میں ان باؤلرز کا طوطی بولتا تھا۔

آئیے آپ کو پاکستان کی تاریخ کے پانچ اہم ترین اسپن گیند بازوں سے ملاتے ہیں، جنہوں نے ملک کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا دنیا بھر میں منوایا۔

عبد القادر

Abdul-Qadir
پاکستان میں جب بھی اسپن گیندبازی کا ذکر ہوگا تو یہ ممکن ہی نہیں کہ عبد القادر کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ اس زمانے میں جب تیز گیندبازی اپنے عروج پر تھی، عبد القادر نے اسپن باؤلنگ میں مقام حاصل کیا۔ یہ کسی انقلاب سے کم نہ تھا۔

لیگ بریک باؤلنگ کا فن کرکٹ میں تقریباً متروک ہو چکا تھا، جب عبد القادر نے مرتے ہوئے فن کو بچایا اور ایسی ترقی دی کہ یہ دنیا بھر کے بلے بازوں کے لیے خطرہ بن گئی۔ بلے بازوں کے لیے عبد القادر کے خطرناک ہتھیار "گگلی" اور "فلپر" تھے۔ ان اہمیت کو سمجھنے کے لیے اتنا کافی ہے اپنے وقت کے خطرناک ترین آسٹریلین گیندباز اور تاریخ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والوں میں سے ایک شین وارن عبدالقادر کے شاگردوں میں سے تھے، جو اپنے کیریئر میں کئی بار عبدالقادر سے ٹپس حاصل کرتے رہے۔

عبدالقادر نے اپنی بین الاقوامی کیریئر کا آغاز 1977ء میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سے کیا اور 1993ء میں یہ اختتام کو پہنچا۔ اپنے 16 سال کے بین الاقوامی کیریئر میں عبد القادر نے 67 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 236 وکٹیں حاصل کیں۔ 104 ایک روزہ مقابلوں میں ملک کی نمائندگی کر کے 132 کھلاڑیوں کو بھی پویلین کی راہ دکھائی۔ بعد ازاں وہ کرکٹ سے مختلف صورتوں میں وابستہ رہے اپنی اکیڈمی چلانے کے علاوہ 2009ء میں قومی ٹیم کے چیف سلیکٹر بھی رہے یعنی اسی سال ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتنے والی ٹیم کا انتخاب بھی انہوں نے ہی کیا تھا۔

ثقلین مشتاق

Saqlain-Mushtaq
پاکستان کے ایک اور اسپن ہیرو، جنہیں "دوسرا" کا موجد کہا جاتا ہے۔ "دوسرا" وہ گیند ہے جو آف بریک کے باؤلنگ ایکشن کے ساتھ ہی پھینکی جاتی ہے لیکن سیدھی نکل جاتی ہے یا پھر لیگ بریک ہوتی ہے۔ اچھے سے اچھا بلے باز بھی اس گیند پر مشکل کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

ثقلین کا بین الاقوامی کیرئیر 1995ء سے 2004ء تک پھیلا رہا، جس کے دوران انہوں نے 49 ٹیسٹ میچوں میں 208 وکٹیں حاصل کیں جس میں 13 مرتبہ پانچ وکٹیں اور تین مرتبہ 10 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایک روزہ مقابلوں میں بھی بہت کارآمد ثابت ہوئے، جس کا ثبوت ان کی شاندار کارکردگی ہے، یعنی 288 کھلاڑیوں کا شکار۔ انہیں "اٹیکنگ اسپنر" کہا جا سکتا ہے اور بسا اوقات تو انہیں آخری اوورز میں باؤلنگ کا مشکل ہدف دیا جاتا تھا اور وہ سرخرو بھی ہو جاتے تھے۔ وہ ون ڈے بلکہ ورلڈ کپ میں ہیٹ ٹرک کا اعزاز بھی رکھتے ہیں لیکن ان کے کیریئر کا سب سے یادگار لمحہ 1999ء میں بھارت کے خلاف رہا جب انہوں نے پہلی بار کسی ٹیسٹ میں 10 وکٹیں حاصل کیں اور پاکستان کو ایک سنسنی خیز ٹیسٹ جتوایا۔ ثقلین کی کرکٹ کا اختتام بہت مایوس کن انداز میں ہوا، جب انہوں نے اپنا آخری مقابلہ کھیلا تو اس وقت ان کی عمر صرف 28 سال تھی۔

مشتاق احمد

Mushtaq-Ahmed
مشتاق احمد کو اگر عبد القادر کا جانشیں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جب عبد القادر اپنی کرکٹ کے اختتامی ایام میں تھے تو مشتاق قومی ٹیم میں جگہ مضبوط کر چکے تھے۔ 1989ء میں سری لنکا کے خلاف ایک روزہ کرکٹ سے کیریئر کی شروعات کی اور اگلے سال آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ کیریئر کا بھی آغاز لیا۔ پھر 1992ء میں عمران خان کی زیر قیادت عالمی کپ جیتنے والے دستے کا بھی حصہ بنے اور 16 شکار کرکے وسیم اکرم کے بعد ٹورنامنٹ کے بہترین باؤلر رہے۔

وہ ایک روزہ کے بہترین باؤلر تھے، مگر اس کارکردگی کو طویل دورانیہ کی کرکٹ میں نہ دہرا سکے۔ ٹیسٹ میں ابتدائی چار، پانچ سال متاثر کن نہیں تھے لیکن پھر 1995ء سے 1998ء کا شاندار دور آیا کہ جس میں انہوں نے 10 مرتبہ اننگز میں پانچ وکٹوں کا کارنامہ انجام دیا اور پاکستان کو کوئی یادگار فتوحات دلائیں۔

سعید اجمل

Saeed-Ajmal
"جادوگر" سعید اجمل طویل عرصے تک تمام طرز کی کرکٹ میں دنیا کے بہترین گیندبازوں میں شمار رہے۔ یہ کوئی پرانی بات نہیں بلکہ آپ میں سے تقریباً ہر کرکٹ دیکھنے والا سعید اجمل کی صلاحیتوں سے خوب واقف ہے۔ 2006ء سے 2014ء تک سعید نے پاکستان کے لیے کئی نمایاں کارنامے انجام دیے اور ایسے خطرناک گیندباز کی صورت میں ابھرے کہ بڑے بڑے بیٹسمین ان کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے۔ چاہے عرب امارات کی وکٹیں ہوں یا بھارت کی، ویسٹ انڈیز ہو یا سری لنکا، ہر جگہ سعید اجمل چھائے ہوئے تھے۔ اگر ثقلین مشتاق "دوسرا" کے موجد تھے تو اس گیند کو نقطہ عروج پر سعید اجمل نے پہنچایا۔

سعید ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009ء میں چیمپئن بننے والے پاکستانی دستے کے رکن تھے کہ جہاں انہوں نے 12 وکٹیں حاصل کیں۔ اگلے سال جب پاکستان کو اعزاز کا دفاع کرنا تھا تو سعید اجمل اس وقت دنیا کے بہترین گیندباز تھے اور اپنی کارکردگی سے پاکستان کو چیمپئن بننے کے قریب تر لاتے رہے یہاں تک کہ سیمی فائنل میں مائیکل ہسی نے سعید اجمل کے آخری اوور میں تین چھکے لگا کر فتح پاکستان کے جبڑوں سے چھین لی۔ اس کے باوجود سعید اجمل آگے بڑھتے رہے۔ 2012ء میں انگلستان کے خلاف سیریز ان کے کیریئر کے یادگار ترین لمحات میں سے ایک رہی لیکن جیسے جیسے وہ آگے بڑھتے رہے ان کے باؤلنگ ایکشن پر اعتراضات بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی مہم نے سعید اجمل سمیت کئی آف اسپن باؤلرز کے کیریئر ختم کردیے۔

دانش کنیریا

Danish-Kaneria
پاکستان کے تمام اسپن گیندبازوں سے زیادہ وکٹیں لینے والے دانش کنیریا اس وقت ٹیم کا حصہ بنے جب ثقلین مشتاق اور مشتاق احمد اپنے کیریئر کے اختتام پر تھے۔ 2000ء میں صرف 19 سال کی عمر میں انگلستان کے خلاف پہلا ٹیسٹ کھیلا اور اس کے بعد پاکستان کی کئی فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا۔ بنگلہ دیش کے خلاف ایک ٹیسٹ میں انہوں نے 77 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کیں اور اس کے بعد انگلستان، بھارت اور نیوزی لینڈ کے مقابلے میں سیریز جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک روزہ میں دانش اتنے متاثر کن نہیں رہے، یہی وجہ ہے کہ صرف 18 ایک روزہ کھیلے لیکن ٹیسٹ کیریئردس سال پر محیط رہا جس کے دوران انہوں نے 61 میچز کھیلے اور 261 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ انہوں نے 15 مرتبہ اننگز میں پانچ مرتبہ وکٹیں لینے کا کارنامہ بھی انجام دیا۔