یاسر شاہ، عرش سے فرش پر

1 1,206

لارڈز میں تاریخی کامیابی کے بعد جیسے ہی پاکستان کا دستہ مانچسٹر منتقل ہوا، ایسا لگا کہ اسے "ہوا" لگ گئی ہے۔ اب اسے موسم کی ہوا کہہ لیں کہ جس میں ان کے پٹھے جم گئے ہیں، یا پھر پہلے ٹیسٹ کے بعد دماغ میں بھرنے والی ہوا، لیکن انگلستان نے دو دنوں میں وہ ساری ہوا نکال دی ہے اور قومی کھلاڑیوں سمیت شائقین سب عرش سے واپس فرش پر آ گئے ہیں۔ اسکور کارڈ پر صرف 57 رنز پر چار وکٹیں اور مزید 532 رنز کا خسارہ تو ایک بھیانک منظر ہے ہی لیکن اب تک کے کھیل کا جو سب سے زیادہ مایوس کن نظارہ ہے، وہ ہے یاسر شاہ کی گیندبازی۔

وہ باؤلر کہ جس نے گزشتہ مقابلے میں 10 وکٹیں لے کر پاکستان کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا، میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز پایا اور دنیا کے نمبر ایک ٹیسٹ باؤلر کے مقام تک پہنچا، اگلے ہی مقابلے میں 213 رنز دے کرصرف ایک وکٹ حاصل کر سکا یعنی جتنے رنز لارڈز میں انگلستان دوسری اننگز میں نہیں بنا سکا، اتنے تو صرف یاسر شاہ نے ہی دے دیے۔ انگلستان ایلسٹر کک کی سنچری کے بعد جو روٹ کی یادگار ڈبل سنچری اور آخر میں کرس ووکس اور جانی بیئرسٹو کی نصف سنچریوں کی بدولت 589 رنز تک پہنچا اور پاکستان کو سخت حالات کا سامنا کرنے کے لیے میدان میں اتار دیا ہے۔بہرحال، یاسر شاہ کی اس مایوس کن کارکردگی نے "ریکارڈ بک" کو کچھ ہلا ضرور دیا ہے۔

پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں اب تک صرف چار گیندباز ایسے تھے، جنہیں کسی مقابلے میں 200 یا اس سے زیادہ رنز پڑے ہوں۔ یاسر شاہ اس فہرست میں پانچواں اضافہ ہیں۔

Yasir-Shah2

یہ فروری 1958ء میں کنگسٹن، جمیکا میں ہونے والا وہ "بدنام زمانہ" مقابلہ تھا کہ جس میں ویسٹ انڈیز نے پاکستان کی باؤلنگ کے کل پرزے ہلا کر رکھ دیے تھے۔ 328 رنز کے جواب میں ویسٹ انڈیز نے گیری سوبرز کی ریکارڈ ساز 365 اور کونراڈ ہنٹ کی 260 رنز کی اننگز کی مدد سے 790 رنز کا مجموعہ حاصل کیا اور آخر میں مقابلہ اننگز اور 174 رنز سے جیتا۔ اس ہمالیہ جیسی اننگز کے دوران دونوں بلے بازوں نے 446 رنز کی رفاقت قائم کی اور پاکستان کے گیندبازوں کا جلوس نکال دیا۔ اہم ترین باؤلر فضل محمود نے 85 سے زیادہ اوورز پھینکے اور 247 رنز دیے جبکہ ان کے ساتھی خان محمد نے 54 اوورز میں 259 رنز کی مار کھائی۔ ان دونوں کے علاوہ خود کپتان عبد الحفیظ کاردار نے بھی 141 رنز دیے لیکن یہ دونوں گیندباز پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 200 سے زیادہ رنز کھانے والے باؤلرز میں شمار ہوگئے۔ لیکن اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں عظیم کھلاڑی تھے۔ ایک ہی ٹیسٹ میں دو گیندبازوں کا 200 سے زیادہ رنز دینے کا شاید یہ تاریخ کا واحد موقع ہوگا۔

اس کے بعد جنوری 1961ء میں حسیب احسن نے بھارت کے خلاف 202 رنز دیے۔ بھارت کے 448 رنز کے جواب میں بھارت نے پولی امریگر کے 117 اور پھر چندو بوردے کی 177 رنز کی ناقابل شکست اننگز کی مدد سے 539 رنز بنائے کہ جس دوران حسیب کے 84 اوورز میں 202 رنز پڑے۔ مقابلہ بہرحال کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکا۔

اگلے 42 سال تک کوئی پاکستانی گیندباز اس سنگین صورت حال سے دوچار نہیں ہوا یہاں تک کہ جنوری 2003ء میں نیولینڈز، کیپ ٹاؤن میں جنوبی افریقہ کے بلے بازوں نے ثقلین مشتاق کو آڑے ہاتھوں لیا۔ جنوبی افریقہ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے اوپنرز گریم اسمتھ اور ہرشل گبز کی 368 رنز کی شراکت داری سے آغاز لیا۔ جس کے بعد گبز نے 228 رنز بنائے اور ٹیم 620رنز تک پہنچی۔ ثقلین نے اننگز میں 50 اوورز پھینکے اور 237 رنز کھائے۔ باقی گیندبازوں کا حال بھی بہت برا دکھائی دیا۔ محمد سمیع 124، وقار یونس 121 اور محمد زاہد 108 رنز دینے کے بعد بے حال ہوگئے اور پاکستان آخر میں مقابلہ اننگز اور 142 رنز سے ہار گیا۔

یہی نہیں بلکہ اگلے ہی سال اپریل میں ثقلین ایک مرتبہ پھر اس بدترین فہرست میں شامل ہوئے۔ اس مرتبہ حریف بھارت تھا جو 2004ء میں تاریخی دورے پر پاکستان آیا تھا۔ پہلا ٹیسٹ ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلا گیا جہاں پہلی اننگز میں بھارت نے پاکستان کے جذبات ٹھنڈے کردیے۔ وریندر سہواگ کی تاریخی ٹرپل سنچری اور سچن تنڈولکر کی 194 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگز نے 675 رنز کا پہاڑ کھڑا کیا۔ ثقلین مشتاق نے اس بار 43 اوورز میں 204 رنز دیے اور اس کے ساتھ ہی ان کے انٹرنیشنل کیریئر کا ہی خاتمہ ہوگیا۔ پاکستان ایک مرتبہ پھر اننگز سے شکست کھا گیا، اس مرتبہ فرق اننگز اور 52رنز کا رہا۔

Saqlain-Mushtaq

کسی ایک ٹیسٹ اننگز میں سب سے زیادہ رنز دینے کا ریکارڈ آسٹریلیا کے چک فلیٹ ووڈ اسمتھ کا ہے۔ اگست 1938ء میں انگلستان کے خلاف اوول ٹیسٹ میں اسمتھ نے 87 اوورز میں 298 رنز کھائے تھے۔ صرف 10 ٹیسٹ میں 42 وکٹیں لینے والے اسمتھ ایک اچھے باؤلر تھے اور اتنے مختصر کیریئر میں دو مرتبہ اننگز میں پانچ اور ایک بار میچ میں دس وکٹیں حاصل کرنا یہی ظاہر کرتا ہے لیکن یہ ٹیسٹ ان کے کیریئر کا آخری مقابلہ ثابت ہوا۔

ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ یاسر شاہ نے اتنے زیادہ رنز کھائے ہوں۔ نومبر 2014ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف شارجہ ٹیسٹ میں یاسر نے 193 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ پاکستان پہلی اننگز میں 351 رنز بنانے کے بعد نیوزی لینڈ سے 690 رنز کھا بیٹھا اور آخر میں ایک اننگز اور 80 رنز سے ہارا۔

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب بھی کسی پاکستانی گیندباز نے 200 سے زیادہ رنز کھائے، سوائے ایک بار کے، ہر مرتبہ پاکستان کو شکست ہوئی ہے۔ آثار اولڈ ٹریفرڈ میں بھی اچھے نہیں دکھائی دیتے، پھر بھی باقی رہ جانے والے بلے بازوں اور بارش کا آسرہ ضرور ہے۔

ایک ٹیسٹ اننگز میں سب سے زیادہ رنز دینے والے پاکستانی گیندباز

گیندباز اوورز رنز وکٹیں بمقابلہ بمقام بتاریخ
خان محمد 54 259 0 ویسٹ انڈیز کنگسٹن فروری 1958ء
فضل محمود 85 247 2 ویسٹ انڈیز کنگسٹن فروری 1958ء
حسیب احسن 84 202 6 بھارت چنئی جنوری 1961ء
ثقلین مشتاق 50 237 3 جنوبی افریقہ کیپ ٹاؤن جنوری 2003ء
ثقلین مشتاق 43 204 1 بھارت ملتان مارچ 2004ء
یاسر شاہ 54 213 1 انگلستان مانچسٹر جولائی 2016ء