برمنگھم، انگلستان کا مضبوط قلعہ

0 3,108

پاک-انگلستان سیریز دو معرکوں کے بعد اب ایک-ایک سے برابری کی سطح پر کھڑی ہے۔ دونوں مقابلوں میں پاکستان کی کارکردگی ناقابل یقین رہی۔ پہلے ٹیسٹ میں کامیابی توقعات سے زیادہ تھی اور دوسرے میں شکست خدشات سے بھی بڑھ کر۔ اب تیسرا مقابلہ 3 اگست سے ایجبسٹن، برمنگھم میں شروع ہو رہا ہے کہ جہاں آج تک 7 پاک-انگلستان مقابلے ہو چکے ہیں اور پاکستان آج تک ایک بھی نہیں جیت سکا۔ یعنی انگلستان یہاں پاکستان کے خلاف ناقابل شکست ہے۔

برمنگھم میں پہلا پاک-انگلستان مقابلہ مئی و جون 1962ء میں ہوا۔ یہ سیریز کا پہلا ٹیسٹ تھا جس میں پاکستان کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی۔ جاوید برکی صرف دو تیز گیندبازوں کے ساتھ میدان میں اترے اور اس غلطی کا خمیازہ پاکستان نے شکست کی صورت میں بھگتا۔ ایک بے ضرر سے باؤلنگ اٹیک کے سامنے انگلستان نے پہلی ہی اننگز میں 544 رنز جڑے۔ کولن کاؤڈرے نے 159 اور پیٹر پیرفٹ نے ناقابل شکست 101 رنز بنائے۔ پاکستان کے لیے یہ کافی سے زیادہ رنز تھے۔ انگلستان کی مضبوط باؤلنگ لائن اپ کے سامنے صرف مشتاق محمد 63 رنز کے ساتھ کچھ مزاحمت کر سکے یہاں تک کہ پوری ٹیم 246 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ یہی نہیں بلکہ فالو-آن کرتے ہوئے بھی صرف 274 رنز ہی بن سکے۔ سعید احمد 65 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔ پہلے ٹیسٹ میں بھاری بھرکم شکست نے پاکستان کے حوصلے ایسے پست کیے کہ پھر وہ دوبارہ سیریز میں سر نہ اٹھا سکا۔ تمام ہی مقابلے بڑے فرق سے ہارے چوتھا ٹیسٹ ڈرا ضرور ہوا لیکن اس میں بھی پاکستان کو فالو-آن کا سامنا کرنا پڑا تھا اور بمشکل چھ وکٹیں گرنے کے بعد مشتاق محمد کی 319 منٹوں پر محیط میراتھون اننگز کی بدولت میچ بچا سکا تھا۔

pak-squad-1962

9 سال بعد 1971ء میں اسی میدان پر سیریز کا پہلا ٹیسٹ کھیلا گیا تھا۔ اس بار حالات کافی مختلف دکھائی دے رہے تھے۔ یہ عمران خان کا پہلا ٹیسٹ تھا جس میں پاکستان نے پہلے بلے بازی کی اور کمال کر دیا۔ ظہیر عباس 274، آصف اقبال 104 اور مشتاق محمد 100 رنز کے ساتھ نمایاں رہے اور پہلی اننگز ناقابل یقین 608 رنز 7 کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر ہوئی۔ جواب میں انگلستان کے 7 کھلاڑی صرف 148 رنز پر آؤٹ ہوگئے۔ انگلستان کی شکست واضح نظر آ رہی تھی جب ایلن ناٹ کی سنچری اور پیٹر لیور کے بھرپور ساتھ نے اسکور 307 رنز تک پہنچا دیا۔ گو کہ اننگز 353 رنز پر مکمل ہوئی اور انگلستان کو فالو-آن پر بھی مجبور ہونا پڑا لیکن اسے سنبھلنے کا موقع ضرور مل چکا تھا۔ پھر دوسری اننگز میں برائن لیک ہرسٹ کی سنچری نے مقابلہ بچا لیا۔ انگلستان 229 رنز بنانے میں کامیاب رہا اور یوں ایک واضح شکست سے بچ کر مقابلہ ڈرا کرگیا۔ ویسے عمران خان پہلے ٹیسٹ میں کوئی خاص تاثر قائم نہیں کر سکے۔ نہ ہی انہیں کوئی وکٹ ملی اور نہ ہی پاکستان کی واحد اننگز میں بلے بازی میں کچھ نمایاں دکھا سکے۔

Imran-Khan-1971

جون 1978ء میں ایجبسٹن میں اگلا پاک-انگلستان مقابلہ پاکستان کے لیے بھیانک خواب ثابت ہوا۔ سیریز کی پہلی ہی اننگز میں پوری ٹیم 164 رنز پر ڈھیر ہوئی۔ کرس اولڈ کی تباہ کن باؤلنگ کا مہمان بلے بازوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کہ جنہوں نے صرف 50 رنز دے کر 7 بلے بازوں کو آؤٹ کیا۔ انگلستان نے جواب میں 452 رنزداغ دیے جس میں کلائیو ریڈلی اور این بوتھم کی سنچریاں شامل تھیں۔ ڈیوڈ گاور نے اپنی پہلی ٹیسٹ اننگز میں 58 رنز بنائے۔ بہرحال، پاکستان پہلی اننگز میں 288 رنز کے خسارے تلے دب سا گیا یہاں تک کہ 94 رنزکا آغاز ملنے کے باوجود 231 رنز پر اننگز تمام ہوگئی۔ انگلستان نے مقابلہ ایک اننگز اور 57 رنز سے جیتا۔

Iqbal-Qasim

جولائی 1982ء میں پاکستان نے ایک مرتبہ پھر ایجبسٹن ہی میں سیریز کا پہلا ٹیسٹ کھیلا۔ ویسے تو پاکستان نے اس سیریز میں 28 سال بعد انگلستان کی سرزمین پر کوئی ٹیسٹ جیتا تھا لیکن اس سے پہلے یہاں برمنگھم میں ایک بدترین شکست ضرور کھائی۔ مقابلے کا آغاز عمران خان کی تباہ کن باؤلنگ سے ہوا کہ جن کے سامنے انگلستان پہلی اننگز میں صرف 272 رنز بنا سکا۔ جواب میں اوپنر مدثر نذر کی وکٹ صفر پر گرنے کے بعد پاکستان کا سنبھلنا مشکل ہوگیا اور 252 رنز تک ہی محدود ہوگیا۔ 21 رنز کی برتری کے بعد انگلستان کو طاہر نقاش کی باؤلنگ کا سامنا کرنا پڑا کہ جن کے سامنے صرف 137 رنز پر آدھی میزبان ٹیم آؤٹ ہو چکی تھی۔ ان میں ڈیوڈ گاور، مائیک گیٹنگ اور این بوتھم کی قیمتی وکٹیں بھی شامل تھیں جو نقاش کو ملیں۔ پاکستان کی کامیابی یقینی دکھائی دیتی تھی جب انگلستان کے لوئر آرڈر نے اپنا "جادو" دکھا دیا۔ خاص طور پر وکٹ کیپر باب ٹیلر اور آخری بلے باز باب ولس نے۔ دونوں نے دسویں وکٹ پر 79 رنز کی ایسی شراکت قائم کی جو بعد میں فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ نقاش کی پانچ وکٹیں ناکارہ گئیں کیونکہ پاکستانی بلے باز 313 رنز کے تعاقب میں صرف 199 رنز پر ڈھیر ہوگئے۔ عمران خان نے 77 رنز پر پانچ وکٹیں گرنے کے بعد اننگز کو سنبھالا دینے کی کوشش کی اور نقاش کے ساتھ مجموعے میں 53 رنز کا اضافہ بھی کیا لیکن ان کے 65 رنز پاکستان کو بچانے کے لیے کافی نہیں تھے۔ یوں ایک بدترین شکست پاکستان کے نصیب میں لکھی گئی۔

1987ء کی اس سیریز میں کہ جہاں پاکستان نے تاریخ میں پہلی بار انگلستان کو اس کے گھر میں سیریز ہرائی تھی، ایجبسٹن میں کھیلا گیا چوتھا ٹیسٹ پاکستان کے لیے یادگار ثابت نہیں ہو سکا تھا یہاں تک کہ وہ شکست سے بال بال بچا۔ مدثر نذر کی سنچری اور جاوید میانداد اور سلیم یوسف کی شاندار اننگز کی بدولت 439 رنز بنانے کے بعد بھی پاکستان کی باؤلنگ نہیں چل پائی یا یوں کہیں کہ انگلستان نے بہترین بلے بازی دکھائی کرس براڈ (54 رنز) اور ٹم رابنسن (80 رنز) کی 119 رنز کی افتتاحی شراکت داری پھر ڈیوڈ گاور (61 رنز) اور مائیک گیٹنگ (124 رنز) کی بہترین اننگز اور آخر میں جان ایمبوری کے 58 رنز۔ 521 رنز بنانے کے ساتھ ہی انگلستان نے 90 رنز کی برتری حاصل کرلی۔ پاکستانی بیٹنگ لائن دوسری اننگز میں توقعات پر پوری نہ اتر سکی۔ صرف شعیب محمد نصف سنچری تک پہنچ پائے اور محض 205 رنز پر اننگز تمام ہوئی۔ انگلستان کو صرف 124 رنز کا ہدف ملا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اوورز صرف 18 باقی تھے۔ انگلستان نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا یہاں تک کہ اپنے تین کھلاڑی تک رن آؤٹ کروا دیے لیکن میچ نہیں جیت سکا۔ صرف 15 رنز کی کمی کی وجہ سے یہ مقابلہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکا۔

Ian-Botham-Javed-Miandad-1987

1992ء میں عالمی چمیپئن بننے کے بعد پاکستان پہلی بار انگلستان کے دورے پر پہنچا تو حوصلے اور جذبات اپنے عروج پر تھے۔ پہلا ٹیسٹ ایجبسٹن ہی میں کھیلا گیا جہاں ابتدائی دو دن میں صرف دو گیندوں کا کھیل ہو سکا جس کے بعد تیسرے روز سلیم ملک اور جاوید میانداد کی شاندار سنچری نے ماحول بنا دیا۔ پاکستان نے 4 وکٹوں پر 446 رنز کے ساتھ اننگز کے خاتمے کا اعلان کیا لیکن انگلستان وسیم اکرم سے محروم پاکستان کو "اینٹ کا جواب پتھر" سے دینے میں کامیاب ہوگیا۔ ایلک اسٹیورٹ صرف 10 رنز کی کمی سے ڈبل سنچری نہ بنا سکے جبکہ رابن اسمتھ 127 رنز بنانے کامیاب رہے۔ انگلستان 459 رنز کے ساتھ پاکستان پر معمولی برتری لے گیا لیکن دن تمام ہوچکے تھے اور مقابلہ صرف ایک، ایک اننگز کھیلنے ہی میں مکمل ہوگیا۔ ویسے یہ عامر سہیل اور انضمام الحق کا پہلا ٹیسٹ تھا۔

Javed-Miandad

اس کے 18 سال بعد پاکستان 2010ء میں ایجبسٹن پر کھیلا اور کیا برا کھیلا۔ پہلی اننگز صرف 72 رنز کے ساتھ تمام۔ انگلستان کو پاکستانی کو ٹھکانے لگانے کے لیے 40 اوورز بھی نہیں پھینکنے پڑے۔ جواب میں سعید اجمل کی عمدہ باؤلنگ کی بدولت انگلستان 251 رنز تک ہی محدود رہا لیکن پاکستان دوسری اننگز میں 82 رنز پر پانچ وکٹوں سے محروم ہونے کے بعد آخر میں سعید اجمل اور ذوالقرنین حیدر کی نصف سنچریوں کی بدولت 296 رنز تک پہنچ پایا ورنہ شاید اننگز سے ہار جاتا۔ دونوں نے آٹھویں وکٹ پر 115 رنز کا اضافہ کیا اور یہی شراکت داری تھی جس کی وجہ سے انگلستان کو دوبارہ بیٹنگ کرنا پڑی۔ اسے 118 رنز کا ہدف ملا جو اس نے پہلی وکٹ جلد گر جانے کے باوجود باآسانی عبور کرلیا۔ یوں برمنگھم میں آخری پاک-انگلستان مقابلہ پاکستان کی 9 وکٹوں سے شکست کے ساتھ تمام ہوا۔

اب بھی کوئی شبہ رہ گیا ہے؟ یہ پاکستان کے لیے ہرگز خوش قسمت میدان نہیں ہے اور دوسرے ٹیسٹ میں 330 رنز کی بدترین شکست کے بعد تو یہ تاریخ مزید بھاری پڑ سکتی ہے۔

ہم مجموعی طور پر بھی ایجبسٹن کو 'انگلستان کا قلعہ' کہہ سکتے ہیں۔ یہاں پہلا ٹیسٹ 1902ء میں کھیلا گیا اور اس کے بعد 73 سال تک دنیا کی کوئی ٹیم اسے یہاں شکست نہیں دے سکی۔ یہاں تک کہ 1975ء میں آسٹریلیا نے یہ کارنامہ پہلی بار انجام دیا۔ اب تک یہاں انگلستان نے 48 ٹیسٹ کھیلے ہیں اور صرف 8 ہارا ہے۔ آخر بار 2008ء میں اسے جنوبی افریقہ نے یہاں شکست سے دوچار کیا تھا۔

اگر ہم رواں صدی میں دیکھیں تو 2001ء سے اب تک انگلستان کو یہاں صرف دو شکستیں ہوئی ہیں۔ اس لیے پاکستان کے لیے یہی مشورہ ہوگا، ذرا سنبھل کر!