اظہر علی کی سنچری اتنی اہم کیوں؟

3 1,036

ایجبسٹن میں پہلا دن تو سہیل خان کے نام رہا لیکن انگلستان کو 297 رنز پر ٹھکانے لگانے کے باوجود پاکستانی کرکٹ شائقین خوشی کے ساتھ ساتھ ایک بڑے سوال کا سامنا بھی کر رہے تھے۔ آخر دوسرے دن کیا ہوگا؟ یہ اتفاق تو ماہرین میں بھی تھا کہ پہلے دن کی کارکردگی سے پاکستان کو بالادست نہ سمجھا جائے بلکہ دوسرے دن اس کی بلے بازی کی "جھلک" دیکھنے تک مقابلے کے حوالے سے کوئی حتمی تاثر قائم نہ کیا جائے۔ پھر آغاز تو ویسا ہی ہوا جیسا خدشہ تھا۔ دن کی چوتھی ہی گیند پر محمد حفیظ ایک بے ضرر سی باہر جاتی ہوئی گیند کو کھیلتے ہیں، دو فیلڈرز کے درمیان سے چوکے کے لیے نہیں، بلکہ براہ راست ایک کے ہاتھوں میں۔ سری لنکا و آسٹریلیا کے درمیان جاری ٹیسٹ میں آسٹریلیا کی اننگز کی طرح پاکستان میں صفر پر ہی پہلی وکٹ سے محروم ہوگیا۔ لیکن اس کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔ ایک یادگار رفاقت قائم ہوئی۔ ایک کنارے پر اظہر علی نے اپنی موجودگی کا پہلی بار احساس دلایا تو دوسرے اینڈ سے 20 سالہ سمیع اسلم نے دنیا کو حیران کردیا۔ دونوں نے 181 رنز کی شراکت داری جوڑی اور پاکستان کو دن کے آخر تک انگلستان کے مجموعے سے صرف 40 رنز کے فاصلے پر لا کھڑا کردیا ہے۔

ویسے تو سمیع اسلم کی اننگز زيادہ کمال تھی کہ جس میں حریف کو کوئی موقع نہیں دیا گیا، جبکہ اظہر کو دو بار زندگیاں ملیں جب انگلش فیلڈرز نے ان کے کیچ چھوڑے۔ لیکن پھر بھی ریکارڈ بک پر یہ ایک سنچری کی صورت میں لکھی جائے گی۔ 139 رنز کی اننگز جس کے دوران اظہر نے 293 گیندیں کھیلیں، 15 چوکے اور ایک چھکا لگایا اور 381 منٹ تک انگلستان کے سینے پر مونگ دلتے رہے۔ یہاں تک کہ دن کی آخری گیند پر وکٹ دے گئے۔ ایک یادگار دن کا اختتام بہت مایوس کن تھا۔

بہرحال، اظہر کی سنچریوں کی تعداد اب دہرے ہندسے میں داخل ہوگئی ہے۔ انہوں نے اپنی دسویں سنچری کے لیے بہترین میدان کا انتخاب کیا۔ ایجبسٹن پر کہ جہاں پاکستان کا ریکارڈ بہت ہی مایوس کن ہے، اظہر کی یہ سنچری ایک تاریخی نتیجہ دے سکتی ہے۔ پھر اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اظہر کی یہ ایشیا سے باہر پہلی سنچری ہے۔ اس سے قبل اظہر کی "مار" صرف متحدہ عرب امارات، سری لنکا اور بنگلہ دیش تک رہی ہے کہ جہاں انہوں نے مختلف میدانوں پر 9 سنچریاں بنائی تھیں لیکن اب ان کے ریکارڈ پر برمنگھم بھی آ گیا ہے۔

اس سے پہلے انگلستان میں اظہر کی سب سے بہترین اننگز ناٹ آؤٹ 92 رنز تھی جو انہوں نے اگست 2010ء میں اوول کے میدان پر بنائے تھے۔

یہ سنچری کتنا بڑا کارنامہ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پچھلے 16 سالوں میں، یعنی نئی صدی میں داخل ہونے کے بعد سے، اب تک تیسرے نمبر پر آنے والے پاکستان کے صرف ایک بلے باز نے ایشیا سے باہر سنچریاں بنائی تھیں۔ یہ کارنامہ دو مرتبہ یونس خان نے انجام دیا۔ انہوں نے جون 2005ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 106 رنز کی فاتحانہ اننگز کھیلی تھی۔ اگلے ہی سال اگست 2006ء میں انہوں نے انگلینڈ کے خلاف ہیڈنگلے ٹیسٹ میں 173 رنز کی باری کھیلی۔ اس مقابلے میں محمد یوسف نے 192 رنز بنائے تھے اور دونوں بلے بازوں نے 363 رنز کی ساجھے داری دی تھی۔ لیکن حیران کن بات دیکھیں کہ پاکستان اس کے باوجود مقابلہ 167 رنز کے بڑے فرق سے ہار گیا۔

خیر، اظہر علی کی اننگز اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ ان کا فارم میں واپس آنا پاکستان کے لیے بہت ضروری تھا۔ وہ گزشتہ سات ٹیسٹ اننگز میں صرف 78 رنز بنا سکے تھے۔ اس میں اظہر کی بہترین اننگز 34 رنز کی تھی جبکہ پانچ مرتبہ تو وہ دہرے ہندسے میں بھی داخل نہیں ہو سکے تھے۔ اس لیے اظہر علی کے حوصلے بڑھانے کے لیے یہ سنچری بہت اہمیت کی حامل ہے۔

Azhar-Ali