"کراچی پیکیج" چل پڑا

2 1,017

اوول میں جاری چوتھا اور فیصلہ کن پہلے دن پاکستان کی گرفت میں آ کر نکل گیا تھا کہ انگلستان 110 رنز پر پانچ بلے بازوں سے محروم ہونے کے باوجود 328 رنز کا مجموعہ اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوگیا اور جواب میں صرف تین رنز پر ایک پاکستانی وکٹ بھی حاصل کرلی۔ یوں پہلے دن سہیل خان کی 68 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کرنے کی کارکردگی گہنا گئی، لیکن دوسرے دن ان کے 'ہم شہر' اسد شفیق اور یونس خان کی شاندار سنچریاں نہ صرف پاکستان کو مقابلے میں واپس لے آئی ہیں بلکہ انگلستان پر برتری بھی دلا دی ہے۔

یونس خان کی 32 ویں ٹیسٹ سنچری ابھی جاری ہے جبکہ اسد شفیق کی ایک یادگار اننگز 109 رنز پر مکمل ہوئی۔ دونوں کے درمیان چوتھی وکٹ پر 150 رنز کی شراکت داری نے پہلے دن کی ناکامیوں کو خاصا چھپا دیا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ "کراچی پیکیج" نے اپنا کام کر دکھایا ہے۔

یونس خان کی سنچری بلاشبہ شاندار تھی، ایک تو یہ تہرے ہندسے کی 32 ویں اننگز جو انہیں دنیا کے سب سے زیادہ سنچریاں بنانے والوں کے مزید قریب لے آئی ہے۔ دوسرا ان کا 'کنورژن ریٹ' یعنی کہ نصف سنچری کو سنچری میں بدلنے کی شرح۔ پچھلے 20 مواقع پر، جب یونس نے 50 کا ہندسہ عبور کیا، وہ 15 مرتبہ سنچری بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت بھی یونس کی سنچریوں کی تعداد نصف سنچریوں سے زیادہ ہے اور وہ 30 سے زیادہ ٹیسٹ سنچریاں بنانے والے بلے بازوں میں میتھیو ہیڈن کے ساتھ واحد بلے باز ہیں، جن کی سنچریاں زیادہ ہیں۔

اسد شفیق گزشتہ مقابلے میں 'پیئر' کا شکار ہوئے تھے یعنی دونوں اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوئے۔ لیکن یہاں اوول میں انہوں نے بہترین جواب دیا ہے۔ اس کا سہرا کپتان اور ٹیم انتظامیہ کو بھی جاتا ہے کہ جنہوں نے اسد شفیق کو چوتھے نمبر پر بھیجا۔ یہ ان کی اس نمبر پر بنائی گئی پہلی سنچری ہے۔ اسد کی اصل پوزیشن چھٹے نمبر کی ہے کہ جہاں وہ 9 سنچریوں کے علاوہ 15 نصف سنچریوں کی مدد سے 2871 رنز بنا چکے ہیں۔

پاکستان چائے کے وقفے تک تین وکٹوں پر 196 رنز کے ساتھ موجود تھا لیکن آخری سیشن میں اس نے تین وکٹیں گنوائیں جس سے انگلستان کو مقابلے میں واپس آنے کا موقع ملا۔ دن کا اختتام 340 رنز چھ کھلاڑی آؤٹ کے ساتھ ہوا یعنی پاکستان کو انگلستان کے پہلی اننگز کے اسکور 328 پر 12 رنز کی برتری مل چکی ہے اور اب وقت ہے اسے مزید آگے بڑھانے کا۔

سمیع اسلم کے بعد پاکستان کی اننگز کی سب سے مایوس کن کارکردگی کپتان مصباح الحق اور نوآموز افتخار احمد کی رہی۔ مصباح صرف 15 رنز بنانے کے بعد سلپ میں کیچ دے گئے جبکہ افتخار احمد ایک غیر ذمہ دارانہ اور غیر ضروری شاٹ کھیل کر 4 رنز کے ساتھ پویلین سدھار گئے۔ ایسی وکٹ پر جہاں یاسر شاہ نے بھی 26 رنز بنائے اور اظہر علی نے بھی 49 رنز کی اننگز کھیلی، وہاں ان دونوں سے ایسی مایوس کن کارکردگی کی توقع نہیں تھی۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ایجبسٹن میں پاکستان اس سے بھی بہتر حالت میں تھا کہ جہاں پہلی اننگز میں 103 رنز کی برتری حاصل کرنے کے باوجود اسے آخری روز شکست ہوئی جب ٹیم 84 اوورز بھی نہ کھیل سکی اور یوں انگلستان کو سیریز میں ناقابل شکست برتری دلا دی۔ اس لیے پاکستان بلاشبہ مقابلے میں واپس آیا ضرور ہے لیکن پچھلی غلطیوں کو نہ دہرانا ہی فتح کا ضامن بن سکتا ہے۔

Younis-Khan