اگر پاکستان ورلڈ کپ 2019ء کے لیے کوالیفائی نہ کرسکا تو کیا ہوگا؟ نشریاتی ادارے پریشان

0 1,052

پاکستان اور بھارت، کرکٹ میں "دیووں کا مقابلہ"، جس پر کروڑوں نظریں ہوتی ہیں، جہاں کھلاڑیوں کی ایک جنبش پر لاکھوں دل دھڑکتے ہیں۔ رواں سال ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں جب دونوں ممالک مدمقابل آئے تو یہ مقابلہ خاص طور پر برصغیر میں کروڑوں شائقین نے دیکھا۔ سنسنی خیز، جوش اور جذبے کے حامل یہ مقابلے کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں کے لیے بھاری آمدنی کا ذریعہ ہوتے ہیں اس لیے تماشائیوں کے ساتھ ساتھ ان اداروں کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان اور بھارت آمنے سامنے آئیں۔

یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے یہ طے کر رکھا ہے کہ تمام بڑے عالمی ٹورنامنٹس میں پاکستان اور بھارت کو ایک ہی گروپ میں رکھا جائے گا تاکہ ان کے درمیان مقابلہ دیکھنے کو ملے۔ اگلے سال ہونے والی چیمپئنز ٹرافی کسی بھی آئی سی سی ٹورنامنٹ میں لگاتار پانچواں موقع ہوگا کہ دونوں حریف ایک ہی گروپ میں ہیں۔

جو مقابلے کروڑوں ناظرین کے لیے پرکشش ہوں تو ان کے پیچھے ٹیلی وژن چینلوں کی بھی بہت دلچسپی ہوتی ہے۔ آخر اشتہارات کی مد میں لاکھوں ڈالرز کی آمدنی جو ہوتی ہے، اس لیے آئی سی سی بھی اپنے نشریاتی حقوق کی رقم بڑھا دیتا ہے گویا پاک-بھارت مقابلے 'پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں' والا معاملہ ہے۔

لیکن پاکستان کی حالیہ ایک روزہ کارکردگی نے ایک بہت بڑا خطرہ پیدا کردیا ہے۔ پاکستان درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے اور اسے عالمی کپ 2019ء کے لیے براہ راست کوالیفائی کرنے کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ یہ نہ صرف پاکستان کے کرکٹ شائقین بلکہ ان سے بھی زیادہ ٹیلی وژن چینلوں کے لیے مایوس کن بات ہوگی۔

اگلا عالمی کپ انگلستان میں کھیلا جائے گا کہ جس میں دنیا کی آٹھ سرفہرست ٹیمیں براہ راست شرکت کریں گی جبکہ باقی چار ٹیموں کو 2018ء میں بنگلہ دیش میں کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑے گا۔ اس ابتدائی مرحلے کی دو سرفہرست ٹیموں کو عالمی کپ میں جگہ ملے گی۔ اگر پاکستان 30 ستمبر 2017ء تک دنیا کی سرفہرست 8 ٹیموں میں شامل نہیں ہو سکا تو اسے اس کوالیفائنگ راؤنڈ میں نہ صرف کھیلنا پڑے گا بلکہ کامیابی بھی حاصل کرنا پڑے گی۔

اگلے عالمی کپ کو 10 ٹیموں تک محدود کرنے کے فیصلے پر ویسے ہی خاص تنقید ہو رہی ہے کیونکہ اس سے ایسوسی ایٹ ممالک کو دستیاب مواقع کم ہو جائیں گے۔

بہرحال، پاکستان کا ایک روزہ میں حال بہت برا ہے۔ اس وقت بھی وہ انگلستان کے خلاف پانچ مقابلوں کی سیریز میں کلین سویپ سے بچنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ دسمبر 2013ء کے بعد سے اب تک، یعنی لگ بھگ تین سالوں میں، وہ صرف سری لنکا کے خلاف دو اور زمبابوے کے خلاف ایک سیریز جیت پایا ہے۔ آئندہ چند ماہ میں اسے ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے خلاف کھیلنا ہے اور پھر اگلے سال چیمپئنز ٹرافی کا سخت مرحلہ ہے، جس کے لیے پاکستان نے بڑی مشکل سے کوالیفائی کیا تھا۔ یہی وہ مواقع ہیں جن کی مدد سے پاکستان اگلے سال ستمبر سے پہلے پہلے اپنی درجہ بندی کو بہتر بنا سکتا ہے۔ درحقیقت یہ شکستہ حال پاکستان کے لیے بہت کٹھن مقابلے ثابت ہوں گے۔

پاکستان کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کو ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور بلاشبہ یہ ان کی صلاحیتوں کا بہت کڑا امتحان ہوگا۔ اظہر علی کے کپتان بننے کے فیصلے پر تو کافی عرصے سے آوازیں اٹھ رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کرکٹ بورڈ اس موقع پر کئی دوسرا بڑا قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے؟

بلاشبہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ زیادہ مقبول ہو چکی ہے لیکن کیا ٹی ٹوئنٹی کی مقبولیت ایک روزہ میں پیچھے رہ جانے کا جواز فراہم کرتی ہے؟ جبکہ خود ٹی ٹوئنٹی میں بھی پاکستان کا حال اچھا نہیں۔ ایک ایسی ٹیم جو ٹیسٹ میں دنیا میں نمبر ایک ہو، محدود طرز کی کرکٹ میں اس کی یہ حالت شرمناک بھی ہے اور نشریات کاروں کے لیے پریشان کن بھی کیونکہ پاکستان دنیا کی چوتھی بڑی کرکٹ مارکیٹ ہے اور اس کو پہنچنے والا کوئی بھی نقصان نہ صرف خود قومی بلکہ عالمی کرکٹ کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔

azhar-ali