اظہر علی کا کیا ہوگا؟

2 1,028

انگلستان کے ہاتھوں شکست کے بعد ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کے لیے ٹیم کے اعلان تک ہر دن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اظہر علی کی کپتانی اب گئی کہ تب گئی۔ لیکن کسی نہ کسی طرح ان کی قیادت تو بچ گئی ہے لیکن میدان میں اظہر کا کیا حال ہے، یہ سب پر عیاں ہے بلکہ میدان سے باہر بھی انہیں سکون نصیب نہیں۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب ایک صحافی کے سوال پر وہ جھنجھلا گئے۔ اس سوال پر کہ آپ میدان میں بہت پریشان لگتے ہیں، جناب کپتان کا جواب تھا "تو کیا چھلانگیں مارتا؟"

کپتان کی پریشانی بجا ہے کہ جب سے قیادت سنبھالی ہے 'ٹیم گرین' تنزلی کی جانب رواں ہے۔ پھر اپنی کارکردگی بھی کچھ خاص نہیں۔ گزشتہ عالمی کپ کے بعد جب اظہر علی کو کپتان بنایا گیا تھا تب بھی ٹیم پاکستان کی حالت اچھی نہیں تھی مگر جس مقام پر وہ اب پہنچ چکی ہے اس کا تو کسی نے نہیں سوچا تھا۔

اظہر نے اب تک 27 ایک روزہ مقابلوں میں پاکستان کی قیادت کی ہے جن میں سے صرف 11 میں کامیابی ملی ہے، وہ بھی تین زمبابوے، دو ویسٹ انڈیز کے خلاف حالیہ اور ایک آئرلینڈ کے مقابل۔ یعنی کمزور ٹیموں کے خلاف یہ چھ مقابلے نکال دیں تو کل پانچ فتوحات بچتی ہیں۔

بحیثیت کپتان اظہر علی کی پہلی سیریز بنگلہ دیش کے خلاف تھی۔ عموما نئے کپتان کے لیے آغاز میں چھوٹی ٹیموں کے ساتھ سیریز بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہے کہ باآسانی شکست اعتماد میں اضافہ کا سبب بنے گی۔ مگر بنگلہ دیش کے خلاف تین ایک روزہ سیریز ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی اور بنگلہ نے تین-صفر سے اظہر الیون کو عبرتناک انجام سے دوچار کیااور اس کے بعد شکستوں کا نہ ختم ہونے والے سلسلہ شروع ہو گیا۔ انگلینڈ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی ہوم سیریز میں تین-ایک سے شکست، زمبابوے اور سری لنکا کے خلاف کامیابی کے بعد نیوزی لینڈ کے دورے پر دونوں مقابلوں میں شکست اور سب سے بڑی شکست دورہ انگلینڈ کے دوران چار مقابلوں کی سیریز میں تین-ایک سے تھی۔ جن میں سے ایک میچ تنزلی کی اس پوری داستان کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے، جب انگلینڈ نے ایک اننگز میں 444 کا عالمی ریکارڈ مجموعہ اکٹھا کیا۔

گو کہ اس مقابلے کے بعد سے اب تک پاکستان ہارا نہیں ہے لیکن اظہر علی پر قیادت کا دباؤ واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ انفرادی کارکردگی کی بنیاد پر اب تو یہ سوال بھی اٹھنے لگا ہے کہ آیا جناب کپتان کی ٹیم میں جگہ بھی بنتی ہے یا نہیں؟ ویسٹ انڈیز کے خلاف تین میچوں کی سیریز کے دو ابتدائی میچ تو گرین شرٹس نے جیت لیے مگر ماہرین کرکٹ اس کا سہرا کسی بھی طرح سے اظہر کو دینے کو تیار نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اظہر علی کی ناکام بلے بازی ہے۔ پہلے میچ میں بغیر رنز بنائے آؤٹ ہو جانا، بلکہ ریویو بھی ضائع کرانا اور دوسرے مقابلے میں دہرا ہندسہ بھی عبور نہ کر پانا۔

اظہر علی نے صحافی کے سوال پر اچھلنے کودنے کی بات کرکے شاید یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ناپسندیدگی کی وجہ شاید ان کا دھیما مزاج ہے اور سب عموماً اچھل کود والے کپتان کو پسند کرتے ہیں۔ مگر یہ تاثر بھی ٹھیک نہیں کیونکہ مصباح الحق اور ایم ایس دھونی کی مثال سامنے ہے۔ دونوں انتہائی خاموش طبع اور دھیمے مزاج کے کپتان تھے۔ اس کے باوجود دونوں نے عوام کے دل جیتے، صرف اپنی معیاری کپتانی اور "میچ ونر" کارکردگی پپش کر کے۔

ویسے اظہر علی کو اس مرحلے تک پہنچانے میں بورڈ کا بھی بڑا حصہ ہے۔ طویل عرصے سے ایک روزہ دستے کا حصہ تک نہ رہنے والے کھلاڑی کو اچانک قیادت سونپ دینے کے بعد جو بھیانک نتائج سامنے آئے، اس کا نتیجہ جہاں قومی کرکٹ کی تنزلی کی صورت میں نکل رہا ہے وہیں اظہر علی جیسے معیاری ٹیسٹ کھلاڑی کا کیریئر بھی متاثر ہو رہا ہے۔

اب اگلے چند ماہ میں پاکستان کا آسٹریلیا کا دورہ کرنا ہے، وہی آسٹریلیا کہ جہاں آخری بار پاکستان کو تمام ٹیسٹ، سب ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں شکست ہوئی تھی۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو عالمی کپ 2019ء کے لیے کوالیفائی کرنے کی مشکل درپیش ہے، کیا بورڈ کپتان کے معاملے پر اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے فیصلے کا ازسرنو جائزہ لے گا؟ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اظہر علی کے لیے دورۂ آسٹریلیا فیصلہ کن ہوگا، آر یا پار!

Azhar-Ali2