گرما گرمی میں بنگلہ دیش کامیاب

0 1,359

ورلڈ کپ 2015ء میں جب بنگلہ دیش نے انگلستان کو شکست دے کر عالمی اعزاز کی دوڑ سے باہر کیا تھا، تب سے ایسا لگ رہا تھا کہ دونوں ٹیمیں اب سخت حریف بنیں گی اور یہ مقابلہ دونوں کے درمیان نزاع کا بیج بو چکا ہے۔ پھر دوسرے ایک روزہ میں وہی گرما گرمی دیکھنے کو ملی جس کی توقع، یا خدشہ، تھا۔ مقابلہ ختم ہونے کے بعد بھی رسمی مصافحے پر تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا۔ البتہ حقیقت یہ ہے کہ مقابلہ بنگلہ دیش نے جیتا اور بہت خوبی سے جیتا۔ پہلے ایک روزہ میں اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے بعد دوسرے میں میزبان نے وہ غلطیاں نہیں دہرائیں اور 34 رنز سے کامیابی حاصل کرکے سیریز کو زندہ رکھا ہے۔

شیر بنگلہ نیشنل اسٹیڈیم میں انگلستان کے قائم مقام کپتان جوس بٹلر نے ٹاس جیتا اور پہلے بنگلہ دیش کو کھیلنے کی دعوت دی۔ صرف 39 رنز پر تین وکٹیں حاصل کرنے کے بعد ان کا یہ فیصلہ درست دکھائی دیتا تھا لیکن محمود اللہ کی اننگز نے بنگلہ دیش کو سنبھالا دیا۔ گو کہ 113 رنز پر آدھی ٹیم میدان بدر ہو چکی تھی لیکن محمود اللہ کی 88 گیندوں پر 75 رنز کی اننگز اور کپتان مشرفی مرتضیٰ کے 29 گیندوں پر 44 رنز نے بنگلہ دیش کو 238 رنز تک پہنچا دیا۔ اسے بنگلہ دیش کی مقابلے میں واپسی کہا جا سکتا ہے۔ آخری 10 اوورز میں 70 سے زیادہ رنز بنانا، تمام 50 اوورز کھیل جانا اور ایک مشکل مرحلے سے دفاع کرنے کے قابل مجموعہ کھڑا کرنا، یہ بنگلہ دیش کا کارنامہ تھا اور اس کا سہرا محمود اللہ اور کپتان کو جاتا ہے۔ لیکن مشرفی صرف یہیں نہیں رکے بلکہ آج حقیقت میں انہی کا دن تھا۔ انہوں نے گیندبازی میں بھی ابتدا ہی میں انگلستان کی پیش قدمی میں وہ رکاوٹیں پیدا کیں جس کی وجہ سے وہ ایک مرتبہ بھی مقابلے پر حاوی نہیں ہو سکا۔ دونوں اوپنرز جیمز ونس اور جیسن روئے کے بعد انہوں نے بین اسٹوکس کی قیمتی وکٹ بھی حاصل کیں تو انگلستان دسویں اوور میں صرف 26 رنز پر چار وکٹوں سے محروم ہو چکا تھا۔

انگلستان کی مقابلے میں واپسی کا تمام تر انحصار جانی بیئرسٹو اور کپتان جوس بٹلر پر تھا۔ دونون نے پانچویں وکٹ پر 79 رنز کا اضافہ کرکے میچ بچانے کی پہلی سنجیدہ کوشش کی لیکن تسکین احمد کے ہاتھوں بیئرسٹو کی اننگز کا خاتمہ ہونے کے بعد انگلستان کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ پہلے تو معین علی شکیب الحسن کے عمدہ کیچ کا شکار بنے اور پھر بنگلہ دیش نے ریویو پر جوس بٹلر کی وکٹ لے لی۔

یہ قیمتی وکٹ حاصل کرتے ہی بنگلہ دیش کو یقین ہوگیا کہ وہ میچ جیت جائے گا لیکن خوشی میں وہ کچھ حد سے آگے نکل گیا۔ جب امپائر نے اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے بٹلر کو باہر جانے کا اشارہ کیا تو وکٹ کی خوشی میں اکٹھے ہونے والے بنگلہ دیشی کھلاڑی آپے سے باہر ہوگئے۔ اس سے پہلے کہ بٹلر اور محمود اللہ گتھم گتھا ہوتے، امپائروں کو مداخلت کرنا پڑی۔ لیکن میچ میں بدمزگی کی چھینٹ پڑ چکی تھی۔

Mahmudullah

بٹلر کے بعد عادل رشید نے آخری وکٹ پر جیک بال کے ساتھ خاصی مزاحمت کی۔ دونوں نے 45 رنز کی شراکت داری قائم کی اور ایسا لگتا تھا کہ اگر وہ سر جھکا کر کھیلتے رہے تو انگلستان کو جتوا بھی سکتے ہیں، لیکن جیک بال ایک لمحے کے لیے ہوش کھو بیٹھے اور دیوانہ وار گیند پر جھپٹ پڑے، ناصر حسین نے ایک عمدہ کیچ لے کر انگلستان کی اننگز کا 204 رنز پر خاتمہ کردیا۔ عادل 33 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ اور مایوس میدان سے واپس آئے۔

بنگلہ دیش کی طرف سے مشرفی نے صرف 29 رنز دے کر 4 وکٹیں لیں اور آل راؤنڈ کارکردگی پر میچ کے بہترین کھلاڑی رہے۔ تین کھلاڑیوں کو تسکین نے آؤٹ کیا۔

مقابلہ ختم ہونے کے بعد بھی تلخی تمام نہیں ہوئی اور رسمی مصافحے کے دوران بین اسٹوکس اور تمیم اقبال میں پھر "سلام دعا" ہوئی۔ بہرحال، اب سب کی نظریں 12 اکتوبر کو چٹاگانگ میں ہونے والے تیسرے ایک روزہ کی طرف ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بنگلہ دیش اپنے میدانوں پر کامیابیوں کے سلسلے کو جاری رکھ پاتا ہے یا اس بار انگلستان اسے شکست دے کر عالمی کپ ناکامی کا داغ دھونے میں کامیاب ہو جائے گا۔

Ben-Stokes-Tamim-Iqbal