بنگلہ دیش کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا، ورنہ۔۔۔ ؟؟

0 1,094

بنگلہ دیش میں کرکٹ کا جنون شاید پاکستان اور بھارت سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے پاس فخر کرنے کے لیے دیگر کھیل بھی ہیں، مگر بنگلہ دیشیوں کا واحد پیار کرکٹ ہے کہ جہاں ان کی کامیابی کی خواہش پوری ہونے کا امکان سب سے زیادہ ہے۔

پاکستان میں تو کرکٹ کے علاوہ کبھی ہاکی بھی ہوتا تھا، اسکواش تو آج بھی پاکستان کا طرۂ امتیاز ہے۔ باکسنگ بھی مقبول ہے تو فٹ بال بھی اب ابھر رہا ہے۔ بھارت میں کرکٹ کے بعد اب ہاکی، فٹ بال، کبڈی اور بیڈمنٹن جیسے کھیل مقبول ہو رہے ہیں بلکہ ان کی منعقدہ لیگز میں کھلاڑی خوب پیسہ بھی بنا رہے ہیں۔

مگر جہاں تک بنگلہ دیش کا تعلق ہے تو وہاں اب اول و آخر بس کرکٹ ہی ہے۔ یہی وجہ ہے تمام جوش و جذبہ اسی کھیل میں در آیا ہے۔ اتنے کھچاکھچ میدان دنیا کے شاید ہی کسی ملک میں بھرے ہوں جتنا کہ بنگلہ دیش میں ہوتے ہیں۔ ہر کامیابی پر یہ شائقین بلکہ کھلاڑی بھی ایسے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں گویا عالمی کپ کا فائنل جیت لیا ہو۔ جیسا کہ ورلڈ کپ 2015ء کے ایک مقابلے میں افغانستان جیسی نئی ٹیم کو شکست دینے کے بعد بنگلہ دستے نے آدھے گھنٹے تک جس طرح جشن منایا وہ حیران کن تھا۔

Mashrafe-Mortaza

آج جبکہ بنگلہ دیش کرکٹ کو بین الاقوامی منظر نامے پر آئے ہوئے دہائیاں گزر چکی ہیں، بھارت، انگلستان یا پاکستان کو شکست دینا اپ سیٹ سمجھا جاتا ہے۔ جس کا ایک مطلب تو واضح ہے کہ بنگلہ ٹیم فتوحات میں تسلسل لانے کی بجائے محض ایک مقابلے کی جیت کی متلاشی رہتی ہے اور اسے یقین نہیں ہوتا کہ وہ اگلا میچ جیت پائے گی یا نہیں۔ دوسری وجہ شاید بڑی اور چھوٹی ٹیموں کی صلاحیتوں کا فرق ہے، جو اب بڑھ گیا۔ چھوٹی ٹیموں کے لیے ایک غیر متوقع جیت عالمی کپ جیتنے سے کم اہم نہیں ہوتی اور افسوس کا مقام ہے کہ بنگلہ دیش تمام تر سرمایہ کاری، جوش اور جذبہ ہونے کے باوجود خود کو تسلسل رکھنے والی ٹیم ثابت نہیں کر سکتی۔

معروف تجزیہ کار ہرشا بھوگلے کے مطابق بھارت و بنگلہ دیش کے درمیان بنگلور میں کھیلا گیا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا مقابلہ ایک مثال ہے کہ صلاحیتوں میں یہ فرق کس حد تک نمایاں ہے۔ بنگلہ دیش کو اہم ترین جیت کے لیے تین گیندوں پر صرف دو رنز کی ضرورت تھی لیکن وہ اس کے حصول میں بھی ناکام رہا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ مشفق الرحیم پر جیت کا جوش اتنا غالب ہوگیا کہ وہ ذہن میں یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ ہم جیت چکے ہیں۔ وہ یہ بھول ہی گیا کہ ابھی دو رنز باقی ہیں جبکہ بھارت نے آخری دو گیندوں کو سنجیدہ لیا اور ایک پروفیشنل ٹیم کی طرح یہ دونوں گیندیں پھینکیں اور ہاری ہوئی بازی جیت لی۔

طویل عرصہ کرکٹ کھیلنے کے باوجود بنگلہ دیش کو اب بچگانہ اور جذباتی سوچ سے نکل کر سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ انگلستان کے خلاف دوسرے ایک روزہ میں کھلاڑیوں کا جوس بٹلر کی طرف بڑھنا انتہائی غیر ضروری اور غیر سنجیدہ حرکت تھی، جس کے بغیر بھی گزارا ہو سکتا تھا۔ پھر گزشتہ سال مستفیض الرحمٰن بھی شاید یہ جتانے کے لیے دو مرتبہ آؤٹ ہونے والے بلے باز کی راہ میں آئے کہ بنگلہ دیش بھارت سے بہتر دستہ ہے۔ بنگلہ دیش کو جلد از جلد اس رویے اور روش سے باہر نکلنا ہوگا۔

آسٹریلیا کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ غیر ضروری جارحانہ انداز اپناتے ہیں تو پھر بنگلہ دیشی کھلاڑیوں پر ہی اعتراض کیوں؟ تو بات سمجھنے کی یہ ہے کہ آسٹریلیا کا جارحانہ رویہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ ہوتا ہے اور اس کا مقصد حرکتوں سے مخالف کی یکسوئی اور کھیل پر ہٹانا اور غصہ دلا کر غلطیاں کروانا ہوتا ہے، جس میں وہ اکثر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں جبکہ بنگلہ دیش اس مقصد کو بالکل نظر انداز کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش جارح مزاجی سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اکثر اپنا نقصان کر جاتا ہے، جس سے جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔