جب شارجہ پاکستانی بیٹنگ کا قبرستان بنا

0 1,461

جب 2009ء میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پاکستان پہنچی تھی تو یہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں کسی بھی ملک کا پہلا دورۂ پاکستان تھا۔ شاید ہی کسی کے وہم و گمان میں ہو کہ یہ آخری دورہ بھی ہو سکتا ہے۔ لاہور ٹیسٹ کے دوران جب دہشت گردوں نے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کو نشانہ بنایا تو اس کے ساتھ ہی ملک ميں بین الاقوامی کرکٹ کے امکانات ختم ہوگئے۔ اس وقت سے اب تک پاکستان کا 'ہوم گراؤنڈ' متحدہ عرب امارات کے میدان ہیں۔ 2010ء سے لے کر اب تک پاکستان یہاں کھیل رہا ہے، اور کیا خوب کھیل رہا ہے۔ پاکستان نے یہاں دنیا کی مایہ ناز ٹیموں کو شکست دی ہے، انگلستان اور آسٹریلیا کو کلین سویپ کیا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں پاکستان نے اپنی تاریخ کی بدترین شکست بھی عرب امارات ہی میں کھائی ہے؟

11 ستمبر 2001ء کو امریکا میں ہونے والے حملوں کے بعد نئی عالمی سیاست نے پاکستان پر بہت برے اثرات ڈالے۔ اگلے سال نیوزی لینڈ کی ٹیم کے ہوٹل کے سامنے فرانسیسی انجینئروں پر حملہ ہوا، جس نے پاکستان کرکٹ کو پہلا دھچکا پہنچایا۔ اسی سال آسٹریلیا نے بھی پاکستان کا دورہ کرنا تھا لیکن انہوں نے آنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے سیریز ملک سے باہر کھیلی گئی۔ پہلا ٹیسٹ کولمبو میں کھیلا گیا جبکہ باقی دونوں ٹیسٹ مقابلے شارجہ میں کھیلے گئے۔ کولمبو میں مقابلہ تو بہت شاندار ہوا لیکن آسٹریلیا جیت گیا جس کے بعد شارجہ کا مرحلہ درپیش تھا جس سے پاکستان کی بڑی یادیں وابستہ تھیں۔

جاوید میانداد کے تاریخی چھکے سے لے کر روایتی حریف بھارت کے خلاف درجنوں فتوحات اسی میدان سے وابستہ ہیں لیکن 2002ء میں اکتوبر کے انہی ایام میں پاکستان نے آسٹریلیا سے جیسی شکست کھائی، اسے کوئی پاکستانی یاد نہیں کرنا چاہتا۔

یہ سیریز کا دوسرا ٹیسٹ تھا، جس میں پاکستان نے ٹاس جیتا اور پہلے بلے بازی سنبھالی۔ بلکہ سنبھالی کیا باری ضائع ہی کی۔ صرف 59 رنز پر پوری پاکستانی ٹیم آؤٹ ہو چکی تھی۔ یعنی پاکستان کی ٹیسٹ تاریخ کا سب سے چھوٹا مجموعہ۔ گلین میک گرا، شین وارن، بریٹ لی اور اینڈی بکل کے سامنے صرف ایک پاکستانی کھلاڑی دہرے ہندسے تک پہنچنے "اعزاز" حاصل پایا۔ عبد الرزاق کے 21 رنز کے بعد صرف "فاضل بھائی" ہی 14 تک پہنچ پائے۔ چار بلے باز صفر کی ہزیمت کے ساتھ میدان سے واپس آئے۔

پاکستان کی باری میں تو لگتا تھا کہ شارجہ کی وکٹ میں بارودی سرنگیں نصب ہیں لیکن جیسے ہی آسٹریلیا بلے بازی کے لیے آیا، وہ دنیا کی آسان ترین وکٹ نظر آئے۔ اوپنر میتھیو ہیڈن کے 119 رنز کی مدد اور سخت گرمی کے خلاف جدوجہد کے بعد آسٹریلیا نے 310 رنز بنا ڈالے۔

لیکن کیا آپ کو لگتا ہے کہ 59 رنز پر آؤٹ ہونا پاکستان کی بدترین کارکردگی ہوگی؟ ہرگز نہیں، اسی مقابلے میں پاکستان کی بیٹنگ لائن 251 رنز کے خسارے کے دباؤ میں اس بری طرح آئی کہ دوسری باری میں صرف 53 رنز پر آل آؤٹ ہوگئی۔ کپتان وقار یونس نے 'پیئر' حاصل کیا یعنی دوسری اننگز میں بھی صفر پر آؤٹ ہوئے۔ ان کے علاوہ یہ "شرف" توفیق عمر، یونس خان اور راشد لطیف نے بھی حاصل کیا۔ یوں پاکستان نے صرف ایک اننگز بعد اپنا ریکارڈ "بہتر" بنا ڈالا۔

یوں آسٹریلیا نے صرف دو دن میں ایک اننگز اور 198 رنز کے بھاری مارجن سے کامیابی حاصل کی۔ یہ آج ہی کا دن یعنی 12 اکتوبر تھا۔ اسے اگر پاکستان کرکٹ کی بلے بازی کی تاریخ کا سیاہ ترین دن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

پاکستان نے اس سے پہلے شارجہ میں دو ٹیسٹ کھیلے تھے۔ جنوری اور فروری 2002ء میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو باآسانی اور بڑے مارجنز سے شکست دی تھی۔ لیکن آسٹریلیا کے خلاف یہاں دونوں میچز میں اننگز سے شکست کے بعد پاکستان اگلے 9 سالوں تک پھر شارجہ لوٹ کر نہیں آیا۔