تنخواہیں کاٹ لیں، لیکن کرکٹ کم کریں

0 2,090

کسی زمانے میں کرکٹ دنیا کا سست ترین کھیل ہوا کرتا تھا۔ پانچ روزہ مقابلے، جن میں نتیجے کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا تھا بلکہ زیادہ تر مقابلے بغیر کسی نتیجے تک پہنچے ہی ختم ہو جاتے تھے۔ ان پانچ دنوں کے درمیان میں ایک دن کا وقفہ تک ہوتا تھا۔ پھر زمانے کی رفتار کے ساتھ کرکٹ نے بھی تیزی پکڑی۔ ٹیسٹ کے مقابلے میں ون ڈے کرکٹ میں جنم لیا اور اب ٹی ٹوئنٹی کا زمانہ ہے کہ جہاں چند گھنٹوں میں مقابلہ ختم اور فیصلہ حاضر! لیکن اس کے نتیجے میں کھلاڑی ایک نئے دباؤکا شکار ہوگئے ہیں۔اب اتنی زیادہ کرکٹ ہونے لگی ہے کہ اب خود کھلاڑی بھی تنگ آنے لگے ہیں۔ آسٹریلیا کے سابق آل راؤنڈر شین واٹسن تو کہتے ہیں کہ اگر شیڈول کو کچھ نرم کیا جائے تو کھلاڑی تنخواہوں میں کٹوتی پر بھی مطمئن ہوں گے۔

آسٹریلیا میں کھلاڑیوں کو کتنے سخت شیڈول کا سامنا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگلے فروری میں آسٹریلیا کو سری لنکا کے خلاف ایک ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلنا ہے جبکہ اگلے ہی دن بھارت کے خلاف ٹیسٹ بھی شروع ہوگا۔

اس سے نمٹنے کا ایک طریقہ آسٹریلیا نے یہ ڈھونڈا ہے کہ کھلاڑیوں کا انتخاب باری، باری کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ابھی جنوبی افریقہ کے دورے کے لیے کوئی صف اول کا گیندباز نہیں بھیجا گیا لیکن نتیجہ پانچ-صفر کی ذلت آمیز شکست کی صورت میں نکلا اور بورڈ کو سخت تنقید کا سامنا بھی ہے۔ ورلڈ چیمپیئن اور عالمی نمبر ایک کی اس بدترین شکست سے کئی سوالات جنم دیے ہیں، جس کے حوالے سے شین واٹسن کہتے ہیں کہ آسٹریلیا کے لیے کھیلتے ہوئے زندگی میں توازن برقرار رکھنا کھلاڑیوں کے لیے اب زیادہ اہم ہوگیا ہے اور وہ اس کے لیے اپنی تنخواہیں کٹوانے پر بھی راضی ہوں گے۔ "اس وقت انٹرنیشنل کرکٹ کلینڈر بہت زیادہ سخت ہے۔ کرکٹ بہت زیادہ کھیلی جا رہی ہے ، وہ بھی کرکٹ کی بہتری یا فروغ کے لیے نہیں، بلکہ دیگر وجوہات کی بنا پر جیسا کہ پیسہ۔ جنوبی افریقہ کے خلاف ہم نے اپنی بہترین ٹیم میدان میں نہیں اتاری اور یہ سمجھتے رہے کہ کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن نتیجہ کلین سویپ کی صورت میں نکلا۔"

دوسری جانب کرکٹ آسٹریلیا کے چیف ایگزیکٹو جیمز سدرلینڈ کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ اگلے سال انٹرنیشنل کرکٹ میں کمی آئے گی لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ آف سیزن میں انڈین پریمیئر لیگ کھیلنے والے کھلاڑیوں کو اس کی شکایت نہیں کرنی چاہیے۔