چھوٹے میاں سبحان اللہ!

0 1,070

بین الاقوامی کرکٹ میں بھائیوں کا کھیلنا اب عام سی بات لگتی ہے۔ پاکستان کے مشہور محمد برادران سے لے کر آسٹریلیا کے وا اور چیپل برادران تک ایک طویل فہرست ایسی موجود ہے۔ پھر باپ کے بعد بیٹے کا بھی کرکٹ سے منسلک ہونا بھی انہونی بات نہیں۔ حنیف محمد کے صاحبزادے شعیب محمد، سنیل گاوسکر کے بیٹے روہن گاوسکر اس کی مثال رہے ہیں اور موجودہ کرکٹ میں بھی راجر بنی کے بیٹے اسٹورٹ بنی اور جیف مارش کے بیٹے مچل مارش بھی اپنے والد کے نقش قدم پر ہیں۔ لیکن ان سب میں ایک اور چیز مشترک ہے، یہ کہ وہ اپنے والد کو پیچھے نہیں چھوڑ سکے۔ نہ ہی شعیب حنیف محمد جیسی لیجنڈری کارکردگی دکھا سکے اور نہ ہی دیگر کھلاڑی ایسا کر سکے۔ لیکن آئیے آپ کو باپ بیٹے کی پانچ ایسی جوڑیوں سے ملاتے ہیں، جن میں "چھوٹے میاں سبحان اللہ!" نکلے یعنی اپنے والد کی نسبت زیادہ کامیاب ہوئے۔

1۔ مکی اور ایلک اسٹیورٹ

micky-stewart-alec-stewart

انگلستان کے ایلک اسٹیورٹ نے 1989ء میں سری لنکا کے خلاف ایک روزہ کے ذریعے اپنے بین الاقوامی کیریئر کا آغاز کیا جس میں انہوں نے بعد ازاں 133 ٹیسٹ مقابلے کھیلے اور 8463 رنز بنائے۔ 1992ء میں پاکستان کے خلاف بنائے گئے 190 رنز ان کی بہترین انفرادی اننگز تھے۔ ایک روزہ میں ایلک اسٹیورٹ نے 4677 رنز بنائے۔ وہ اپنے زمانے کے بہترین وکٹ کیپر بلے باز تھے اور آج بھی انگلستان کے کئی ریکارڈز ان کے پاس ہیں۔ ان کے والد مکی اسٹیورٹ بھی جارحانہ اوپنر تھے، جن کی اضافی خصوصیت بہترین فیلڈر ہونا تھی۔ 1962ء میں پاکستان کے خلاف لارڈز کے مقام پر اپنے بین الاقوامی کیریئر کا آغاز کیا اور 30 سال کی عمر تک 8 ٹیسٹ کھیلنے میں کامیاب رہے جو سا دور کے لحاظ سے متاثر کن تھا۔ اس دوران 1963ءمیں انہوں نے نائب کپتان کی حیثیت سے بھارت کا دورہ بھی کیا لیکن یہی دورہ ان کے بین الاقوامی کیریئر کا خاتمہ کرگیا۔ اپنے مختصر کیریئر میں مکی نے صرف دو سنچریاں بنائیں۔ ان کے مقابلے میں بیٹے ایلک کی انٹرنیشنل کرکٹ میں 73 نصف سنچریاں اور 19 سنچریاں تھیں۔

2۔یوگراج اور یوراج سنگھ

yograj-singh-yuvraj-singh

یووراج سنگھ کو کون نہیں جانتا؟ انہوں نے 2000ء میں آسٹریلیا کے خلاف 84 رنز کی اننگز سے کیریئر کا آغاز کیا اور بہت جلد بھارت کے دستے کے اہم رکن بن گئے۔ جارحانہ بلے بازی اور اس کے ساتھ کارآمد اسپن باؤلنگ میں اپنے فن کے جوہر دکھائے اور بھارت کو کئی یادگار فتوحات دلائی۔ 2007ء میں بھارت کو ٹی ٹوئنٹی کا اور 2011ء میں ایک روزہ کا عالمی چیمپیئن بنانے میں یووراج کا کردار اہم تھا۔ پہلے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ان کے مسلسل چھ چھکے بھلا کون بھلا سکتا ہے جو انہیں شہرت کی بلندیوں پر لے گئے۔ وہ ورلڈ کپ 2011ء میں غیر معمولی کارکردگی دکھا کر ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی بھی بنے۔ یووراج نے کیریئر میں 40 ٹیسٹ کے ساتھ 293 ایک روزہ بھی کھیل رکھے ہیں جہاں ان کے 8329 رنز بھی ہیں۔

ان کے والد یوگراج سنگھ دائیں ہاتھ سے نیم تیز باؤلنگ کرتے تھے۔ 1981ء میں انہیں ملک کی نمائندگی کا موقع ملا لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف ویلنگٹن ٹیسٹ ان کے کیریئر کا واحد ٹیسٹ ثابت ہوا جس میں انہوں نے ایک وکٹ حاصل کی۔ اس دورے سے قبل وہ بھارت کے لیے پانچ ون ڈے کھیل چکے تھے لیکن متاثر کن کارکردگی نہ دکھا سکے اور محض چار شکار ہی ہاتھ آئے۔ ان کے مقابلے میں یووراج جزوقتی گیندباز ہونے کے باوجود اب تک 148 وکٹیں لے چکے ہیں۔

3۔پیٹر اور شان پولاک

Peter-Shaun-Pollock

شان پولاک جنوبی افریقہ کی تاریخ کےعظیم آل راؤنڈرز میں سے ایک ہیں جن کی شاندار گیند بازی اور بلے بازی کی دنیا شاہد ہے۔ ہنسی کرونیے کے بعد انہیں جنوبی افریقہ کی قیادت بھی سونپی گئی۔ 108 ٹیسٹ میں 421 شکار کرنے کے علاوہ انہوں نے 303 ایک روزہ میں بھی ملک کی نمائندگی کی۔ تین بین الاقوامی سنچریوں کے علاوہ پولاک نے 30نصف سنچریاں بھی اسکور کیں اور انٹرنیشنل کرکٹ میں 7300 رنز بنائے حالانکہ ان کی اصل مہارت باؤلنگ تھی جہاں انہوں نے خوب کمالات دکھائے۔ ٹیسٹ میں 421اور ایک روزہ میں 393شکار یعنی دونوں طرز کی کرکٹ میں جنوبی افریقہ کے لیے سب سے زیادہ وکٹیں۔ انہوں نے 2008ء میں کرکٹ کوخیرباد کہا۔

اپنے بیٹے شان کی طرح پیٹر پولاک بھی بہترین گیندباز تھے جنہوں نے جنوبی افریقہ کے لیے نمایاں کارکردگی دکھائی۔ اپنی شاندار باؤلنگ کی وجہ سے انہوں نے جنوبی افریقہ کوکئی مقابلے جتوائے لیکن وہ صرف 28 ٹیسٹ میچز ہی کھیل سکے کیونکہ نسل پرست حکومت کی وجہ سے جنوبی افریقہ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ یوں پیٹر پولاک 28 ٹیسٹ میں116 وکٹوں تک ہی محدود رہ گئے لیکن صاحبزادے شان نے بعد میں والد کے سب ارمان پورے کیے۔

4۔افتحار اور منصور علی خان

iftikhar-mansur-ali-pataudi

بھارت کے نواب خاندان سے تعلق رکھنے والے منصور علی خان پٹودی صرف 21 سال کی عمر قومی ٹیم کی قیادت سنبھالی۔ ایک حادثے میں انہیں اپنی دائیں آنکھ کی بصارت سے محروم ہونا پڑا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ دائیں ہاتھ کے بلےباز کا شمار بہترین بھارتی کپتانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے 1967 میں کپتان کی حیثیت میں اپنے پہلے بیرون ملک دورے پر بھارت کو ایک ٹیسٹ میں کامیابی سے ہمکنار کروایا۔ منصور نے 46 ٹیسٹ میچوں میں 6 سنچریوں کی مدد سے 2793 رنز بنائے۔فیروزشاہ کوٹلہ اسٹیڈیم، دہلی میں انگلینڈ کے خلاف ناقابل شکست 203 رنز ان کے کیریئر کی بہترین اننگز تھی۔

ان کے والد افتخار علی خان پٹودی کا بین الاقوامی کیریئر گو کہ صرف چھ مقابلوں تک محدود رہا لیکن وہ انگلستان اور بھارت دونوں کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا منفرد اعزاز رکھتے ہیں۔ 1932ء میں انگلستان کی طرف سے کھیلتے ہوئے افتخار نے اپنے پہلے ہی مقابلے میں سنچری بنائی تھی۔ انہوں نے انگلستان کے لیے آخری مقابلہ 1934ء میں کھیلا اور پھر 14 سال بعد 1946ء میں تین مقابلوں میں بھارت کی نمائندگی کی لیکن کچھ خاص کارنامہ نہ دکھا سکے۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ بعد میں ان کے بیٹے منصور نے پوری کی اور باپ کا نام روشن کیا۔

5۔والٹر اور رچرڈ ہیڈلی

richard-hadlee-walter-hadlee

نیوزی لینڈ کے رچرڈ ہیڈلی کا شمار اپنے وقت کے بہترین تیز گیند بازوں میں ہوتا تھا۔ رچرڈ اپنے ملک کے لئے 400وکٹیں حاصل کرنے والے پہلے گیندباز تھے۔ ویسے ان میں بلےبازی کے 'جراثیم' بھی کافی موجود تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کا شکار کپل دیو، این بوتھم اور عمران خان جیسے عظیم آل راؤنڈرز کے ساتھ ہوتا ہے۔ 1985ء میں آسٹریلیا کے خلاف برسبین ٹیسٹ میں 15 وکٹیں ان کی بہترین کارکردگی تھی، جس میں انہوں نے ایک اننگز میں 9 کھلاڑیوں کو بھی آؤٹ کیا تھا۔ انٹرنیشنل کرکٹ میں 4875 رنز اور 589 وکٹیں ان کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

رچرڈ کے والد والٹر ہیڈلی بطور کھلاڑی، کپتان اور کوچ نیوزی لینڈ کرکٹ کے لیے خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ انہیں صرف 11 مقابلوں میں نیوزی لینڈ کی نمائندگی کا موقع ملا۔ 1951ء میں اپنی آخری کرکٹ اننگز کھیلنے والے والٹر نے 2006ء میں کرائسٹ چرچ میں زندگی کی اننگز بھی مکمل کی۔ بلاشبہ انہیں اپنے بیٹے رچرڈ پر فخر ہوگا۔