آج پاکستان کی پہلی فتح کا دن

2 5,059

پاکستان کرکٹ اس وقت عروج کی جانب گامزن ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان ٹیسٹ میں پہلی بار عالمی نمبر ایک بھی بنا۔ نووارد سے لے کر عالمی نمبر ایک تک کے سفر کا اصل آغاز آج ہی تاریخ میں ہوا تھا، 26 اکتوبر کو، وہ بھی 64 سال پہلے جب پاکستان نے ٹیسٹ درجہ حاصل کرنے کے بعد پہلی بار کوئی ٹیسٹ جیتا تھا۔ یہ 1952ء میں پاکستان کے دورۂ بھارت کا دوسرا ٹیسٹ تھا جو لکھنؤ میں کھیلا گیا، جس میں پاکستان نے ایک اننگز اور 43 رنز کے بھاری مارجن سے تجربہ کار بھارت کو شکست دی اور یوں اپنی آمد کا اعلان کیا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کا قیام مئی 1948ء میں عمل میں آیا تھا۔ پھر چار سال بعد پاکستان باقاعدہ طور پر بین الاقوامی کرکٹ سے منسلک ہوا۔ جولائی 1952ء میں پاکستان کو ٹیسٹ کھیلنے کی اجازت ملی اور اسی سال اکتوبر میں پاکستان نے اپنا پہلا بین الاقوامی دورہ پڑوسی ملک بھارت کا کیا۔ اس باہمی سیریز میں پانچ ٹیسٹ مقابلے کھیلے جانے تھے، جو تمام چار روزہ تھے۔ دہلی میں ہونے والے پہلے مقابلے میں پاکستان کو ایک اننگز اور 70 رنز کے بھاری فرق سے شکست ہوئی لیکن دوسرے میچ میں پاکستان نے اپنی صلاحیتوں کا حقیقی اظہار کیا اور فضل محمود اور نذر محمد کی شاندار کارکردگی کی بدولت پاکستان نے پہلے ہی دورے پر ایک یادگار کامیابی سمیٹی۔

یہ لکھنؤ کا یونیورسٹی گراؤنڈ تھا، جہاں بھارت کا دستہ لالا امرناتھ اور پاکستان کا عبد الحفیظ کاردار کی زیر قیادت مقابل آیا۔ میزبان کا ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ بہت ہی غلط ثابت ہوا کیونکہ فضل محمود نے صرف 106 رنز پر انہیں ڈھیر کردیا۔ بھارت کے صرف تین بلے باز دہرے ہندسے میں پہنچے۔ پاکستان کی طرف سے فضل نے 52 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں اور یوں اننگز میں پانچ وکٹیں لینے والے پہلے پاکستانی باؤلرز بنے۔ محمود حسین نے 3 اور مقصود احمد نے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

Pakistani-team-at-Reception-in-Lucknow-1952

حریف کو معمولی اسکور پر ڈھیر کرنے کے بعد پاکستان کے حوصلے بہت بلند ہوگئے۔ نذر محمد اور حنیف محمد نے 63 رنز کے ذریعے بہترین آغاز دیا۔ حنیف محمد نے 34 رنز بنائے لیکن نذر محمد نے 124 رنز کی ریکارڈ ساز اننگز کھیلی۔ ایک تو وہ پاکستان کے لیے پہلی ٹیسٹ سنچری بنانے والے بیٹسمین بنے، دوسرا ناٹ آؤٹ بھی رہے یعنی 'بیٹ کیری' کیا۔ پاکستان کی اننگز 331 رنز پر مکمل ہوئی۔ نذر نے آخری تین بلے بازوں کے ساتھ مل کر اسکور میں 92 رنز کا اضافہ کیا۔

پہلی اننگز میں 225 رنز کی برتری بھارت کے لیے کافی ثابت ہوئی۔ فضل کی طوفانی باؤلنگ کے سامنے بھارت کی بیٹنگ لائن اپ ایک مرتبہ پھر رحم و کرم پر دکھائی دی۔ شروع کے پانچ میں سے چار کھلاڑی فضل نے آؤٹ کیے جبکہ اسکور محض 77 رنز تک ہی پہنچا تھا۔ یہاں لالا امرناتھ نے 61 رنز کے ساتھ مزاحمت کی یہاں تک کہ فضل محمود نے دوسرے اینڈ سے بھارتی اننگز کا خاتمہ کردیا، صرف 182 رنز پر۔

فضل محمود نے دوسری اننگز میں صرف 42 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کیں اور یوں میچ میں 12 وکٹیں لیں۔ وہ میچ میں 10 یا زیادہ وکٹیں لینے والے پہلے پاکستانی باؤلر بھی بن گئے۔

بدقسمتی سے پاکستان سیریز کا تیسرا میچ 10 وکٹوں سے ہار گیا اور آخری دو میچز ڈرا ہوئے۔ یوں بھارت دو-ایک سے سیریز جیتنے میں کامیاب ہوگیا لیکن یہ لکھنؤ میں آج کے دن ملنے والی کامیابی تھی کہ جس نے پاکستان کو یہ یقین دیا کہ وہ جیت سکتا ہے۔ اسی یقین کی بدولت پاکستان نے بعد ازاں انگلستان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنی پہلی ہی سیریز میں کم از کم ایک کامیابی ضرور حاصل کی اور وہ یہ اعزاز رکھنے والی دنیا کی پہلی ٹیم بنا۔

1952ء میں بھارت کا دورہ کرنے والی پاکستان کی پہلی ٹیم کا گروپ فوٹو۔ (بیٹھے ہوئے دائیں سے بائیں) امیر الہی، نذر محمد، انور حسین، عبد الحفیظ کاردار (کپتان)، امتیاز احمد، فضل محمود اور مقصود احمد۔ (بیٹھے ہوئے بائیں سے دائیں) اسرار علی، خورشید احمد، روسی ڈنشا، محمود حسین، خالد قریشی، وقار حسن، خالد عباد اللہ، وزیر محمد، ذوالفقار احمد اور حنیف محمد
1952ء میں بھارت کا دورہ کرنے والی پاکستان کی پہلی ٹیم کا گروپ فوٹو۔
(بیٹھے ہوئے دائیں سے بائیں) امیر الہی، نذر محمد، انور حسین، عبد الحفیظ کاردار (کپتان)، امتیاز احمد، فضل محمود اور مقصود احمد۔
(کھڑے ہوئے بائیں سے دائیں) اسرار علی، خورشید احمد، روسی ڈنشا، محمود حسین، خالد قریشی، وقار حسن، خالد عباد اللہ، وزیر محمد، ذوالفقار احمد اور حنیف محمد۔ (خان محمد اس تصویر میں موجود نہیں)