آئی سی سی کا اہم سالانہ اجلاس 26 جون کو ہوگا

1 1,055

بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی)کااہم ترین سالانہ اجلاس 26 جون سے ہانگ کانگ میں شروع ہو رہا ہے جس میں کھیل کے مستقبل کے حوالے سے اہم فیصلے کیے جائیں گے۔ شیڈول کے مطابق 26 اور 27 جون کو آئی سی سی چیف ایگزیکٹوز کمیٹی، 28 اور 29 جون کو آئی سی سی ایگزیکٹو بورڈ اور 20 جون کو فل کونسل کا اجلاس ہوگا۔

امپائرز کے فیصلوں پر نظرثانی کے نظام پر زبردست بحث متوقع ہے، دیکھتے ہیں پلڑا بھارت کے حق میں پلٹتا ہے یا دیگر ممالک کے حق میں

کرک نامہ کو آئی سی سی کی جانب سے موصول ہونے والے اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ اجلاس میں آئی سی سی کی کرکٹ کمیٹی کی سفارشات پر غور کیا جائے گا۔ جس میں 2015ء کے عالمی کپ کا فارمیٹ، ڈے/نائٹ ٹیسٹ میچز، امپائرز کے فیصلوں پر نظر ثانی کے نظام، رنرز کے استعمال، اوور ریٹس اور پچوں کی صورتحال کے حوالے سے اہم سفارشات پر غور کیا جائے گا۔

اس میں چند معاملات پر بہت زیادہ ہنگامہ خیزی کی توقع ہے ایک نظر ثانی کے نظام پر بھارت کی مخالفت، جبکہ بیشتر ممالک اور خود آئی سی سی کرکٹ کمیٹی اس کے مکمل اطلاق کی خواہاں ہے، دوسری جانب 2015ء کے عالمی کپ میں کمزور ٹیموں کو کھلانے کا فیصلہ، جس پر میزبان آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا رائے بقیہ اراکین سے مختلف ہے اور وہ محض 10 ٹیموں کے ساتھ عالمی کپ کی میزبانی کے خواہشمند ہیں۔ ایک اور معاملہ جس پر ممکنہ طور پر گفتگو ہوگی وہ آئی سی سی کی صدارت کے لیے باری کے طریقہ کار کا خاتمہ ہے۔

2015ء عالمی کپ

2015ء کے عالمی کپ میں 10 ٹیموں کو کھلایا جائے گا۔ اب دیکھیں اجلاس میں کوالیفائنگ راؤنڈ کے حوالے سے کیا فیصلہ ہوتا ہے۔

آئی سی سی کے اس اہم اجلاس کے پیش نامے (ایجنڈے) میں سرفہرست 2015ء کے عالمی کپ کا فارمیٹ بھی ہوگا۔ آئی سی سی نے عالمی کپ 2011ء کے فوراً بعد آئی سی سی ایگزیکٹو بورڈ نے اعلان کیا تھا کہ اگلا ٹورنامنٹ 10 ٹیموں پر مشتمل ہوگا، جس پرآئرلینڈ اور دیگر نوآموز ٹیموں نے شدید احتجاج کیا اور اس میں مختلف مکمل رکن ممالک نے بھی ان کی حمایت کی۔ اس کے بعد آئی سی سی کرکٹ کمیٹی کے اجلاس میں تجویز پیش کی گئی 2015 ء کے عالمی کپ کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈ رکھا جائے۔

گو کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے 10 ٹیموں کے گزشتہ فیصلے پر مسرت کا اظہار کیا تھا، لیکن بیشتر حلقے اس پابندی کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے اسے بدلنے کے حق میں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی سی سی کرکٹ کمیٹی نے درمیانہ راستہ اختیار کرتے ہوئے کوالیفائنگ راؤنڈ کی تجویز دی، جس پر حالیہ اجلاس میں غور کیا جائے گا۔

امپائرز کے فیصلوں پر نظرثانی کا نظام

آئی سی سی اجلاس میں کرکٹ کمیٹی کی جس دوسری سفارش پر غور کیا جائے گا وہ نظر ثانی کے نظام (DRS) کا مکمل اطلاق ہے۔ کرکٹ کمیٹی نے مئی میں ہونے والے اجلاس میں تجویز پیش کی تھی کہ ٹیسٹ میچز کے ساتھ ساتھ ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی مقابلوں میں اس کو استعمال کرنے کی سفارش کی تھی۔
بھارتی کرکٹ بورڈ نظرثانی کے نظام کو موجودہ صورتحال میں قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے اور بارہا اس کی شدت سے مخالفت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ویسٹ انڈیز کے خلاف جاری سیریز میں بھی یہ نظام استعمال نہیں کیا جا رہا اور انگلستان کے خلاف آنے والی سیریز میں بھی اسے شامل نہیں کیا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اپنی قوت کے بل بوتے پر تمام اراکین کو زیر کرنے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔ توقع یہی ہے کہ بھارت کے مالی لحاظ سے اپنے اثر و رسوخ کے باعث آئی سی سی کے فیصلے پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوگا جیسا کہ وہ دیگر معاملات میں بھی اپنی من مانی کر چکا ہے۔

آئی سی سی صدارت

اجلاس میں آئی سی سی کی صدارت کے لیے رائج 'باری' کے طریقے کو بدلنے پر غور کیا جائے گا۔ اس مرتبہ صدارت و نائب صدارت کے لیے پاکستان و بنگلہ دیش کی باری ہے۔ گو کہ اس طریق کار کو بدلنے کی کرکٹ کمیٹی نے کوئی تجویز پیش نہیں کی تھی بلکہ اس پر گفتگو آئی سی سی گورننس کمیٹی کے اجلاس میں پیش کی گئی تھی۔پاکستان اور بنگلہ دیش اس حوالے سے کسی بھی فیصلے کی شدت سے مخالفت کریں گے۔

تاہم آئین میں اس تبدیلی کے لیے بہت زیادہ اکثریت کی ضرورت ہے۔ فل کونسل کا اجلاس 10 مکمل اراکین، 35 ایسوسی ایٹ اور 5 ملحق اراکین پر مشتمل ہوگا۔ آئی سی سی کے آئین میں تبدیلی کے لیے کم از کم 8 مکمل اراکین اور فل کونسل کے 50 میں سے 38 اراکین کی حمایت ضروری ہے۔ اگر آئین میں اس تبدیلی کے حق میں کوئی نہ رہا تو پاکستان اور بنگلہ دیش اکیلے اس ترمیم کو نہيں روک سکتے اور بالآخر دونوں ممالک کو اپنی صدارت کی باری سے محروم ہونا پڑے گا۔

علاوہ ازیں آئی سی سی اس معاملے پر بھی غور کر رہا ہے کہ رکن بورڈز میں مقامی حکومتوں کی مداخلت پر کڑی سزائیں دی جائیں، جس میں متعلقہ بورڈز کی ٹیموں پر پابندی لگانے کی تجویز بھی شامل ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اس فیصلے کے خلاف شدید احتجاج کرے گا کیونکہ پی سی بی میں حکومتی و سیاسی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں حالانکہ اس کے تمام اعلیٰ عہدیداروں کا انتخاب سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔

سی ایل ٹی 20

سی ایل ٹی 20 میں پاکستان کو مسلسل نظرانداز کیا گیا ہے

پاکستان آئی سی سی کی صدارت کے معاملے پر ممکنہ تجاویز کے علاوہ چیمپیئنز لیگ ٹی 20 کے لیے ایک مرتبہ پھر نظر انداز کیے جانے کے معاملے اٹھائے گا۔ دنیا کی بہترین ٹی ٹوئنٹی ٹیم اور قومی سطح پر قدیم ترین ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ موجود ہونے کے باوجود پاکستان کو کبھی بھی چیمپیئنز لیگ ٹی 20 کے لیے مدعو نہیں کیا گیا۔ اس مرتبہ بھی پاکستان کا مقاطعہ جاری رہا حالانکہ انتظامیہ نے انگلستان اور سری لنکا سے بھی ٹیموں کو مدعو کیا ہے لیکن بھارت نوازی کے باعث پاکستان کی لیگ ٹیموں کو باہر رکھا جا رہا ہے۔ پاکستان اجلاس میں اس ناانصافی کے خلاف بھی آواز اٹھائے گا۔

یوں پاکستان کے حوالے سے یہ اجلاس بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور پاکستان کے حوالے سے کئی اہم فیصلے ہوں گے۔

دیگر زیر بحث معاملات

دیگر اہم معاملات میں ڈے/نائٹ ٹیسٹ میچ کے انعقاد، ایک روزہ مقابلوں میں دونوں اینڈز سے دو مختلف گیندیں استعمال کرنے اور 16 ویں سے 40 اوور کے درمیان بیٹنگ اور باؤلنگ پاور پلے لینے کی اجازت دینے کی سفارشات پر غور شامل ہوگا۔ دیگر جن معاملات پر فیصلہ متوقع ہے ان میں رنر کے استعمال کی اجازت ختم کرنے اور بلے باز کو وکٹوں کے درمیان اس طرح دوڑنے پر کہ فیلڈنگ کرنے والی ٹیم رن آؤٹ نہ کر پائے، آؤٹ قرار دینے کی سفارشات بھی شامل ہیں۔

آئی سی سی بورڈ اجلاس کے شرکاء

شر پوار، صدر بین الاقوامی کرکٹ کونسل

ایلن آئزک، نائب صدر بین الاقوامی کرکٹ کونسل

ہارون لورگاٹ، چیف ایگزیکٹو بین الاقوامی کرکٹ کونسل

اعجاز بٹ، پاکستان

پیٹر چنگوکا، زمبابوے

جائلز کلارک، انگلستان و ویلز

جیک کلارک، آسٹریلیا

ڈاکٹر جولین ہونت، ویسٹ انڈیز

مصطفیٰ کمال، بنگلہ دیش

کیتھ اولیور، نمائندہ ایسوسی ایٹ اراکین

عمران خواجہ، نمائندہ ایسوسی ایٹ اراکین

نیل اسپائٹ ، نمائندہ ایسوسی ایٹ اراکین

شاشنک منوہر، بھارت

کرس مولر، نیوزی لینڈ

ڈاکٹر ایم نیوکا، جنوبی افریقہ

ڈی ایس ڈی سلوا، سری لنکا

چیف ایگزیکٹو کمیٹی

ہارون لورگاٹ، چیف ایگزیکٹو بین الاقوامی کرکٹ کونسل (چیئرمین)

شرد پوار، صدر بین الاقوامی کرکٹ کونسل

کلائیو لائیڈ، چیئرمین آئی سی سی کرکٹ کمیٹی

منصور احمد، بنگلہ دیش

سبحان احمد، پاکستان

مائیکل براؤن، آسٹریلیا

ڈیوڈ کولیئر، انگلستان و ویلز

جان کریبن، نمائندہ ایسوسی ایٹ اراکین

ویرن ڈیوٹروم، نمائندہ ایسوسی ایٹ اراکین

ڈاکٹر ارنسٹ ہلیئر، ویسٹ انڈیز

جیرالڈ مجولا، جنوبی افریقہ

ولفریڈ موکونڈیوا، زمبابوے

نشانتھا راناٹنگا، سری لنکا

این سری نواسن، بھارت

ڈاکٹر جسٹن وان، نیوزی لینڈ