’’تیسرا‘‘ کون؟؟

0 1,048

ویسٹ انڈیز کے خلاف "ہوم سیریز" میں پاکستان نے پہلے دونوں مقابلوں میں کامیابی حاصل کی ۔ٹاپ آرڈر میں اظہر علی نے ٹرپل سنچری بھی بنائی، سمیع اسلم بھی خود کو منوانے کی کوششوں میں مصروف ہیں مگر ابوظہبی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں پاکستان کو صرف 6 رنز کا آغاز ملا جب اظہر علی کھاتہ کھولنے سے قبل پویلین لوٹ گئے جبکہ شارجہ ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں پہلے ہی اوور میں صفر پر دو بیٹسمین پویلین لوٹ گئے اور اظہر علی کے اکاؤنٹ میں ایک اور "صفر" کا اضافہ ہوا۔ ان دو اننگز کے علاوہ دیگر تین باریوں میں اظہر اور سمیع کی جوڑی نے پاکستان کو اچھا آغاز فراہم کیا ہے اس لیے دورہ نیوزی لینڈ و آسٹریلیا کے لیے اظہر علی اور سمیع اسلم ہی اولین انتخاب ہوں گے مگر ان دوروں کے لیے تیسرا اوپنر کون ہوگا یہ سوال بہت اہم ہے۔

اس وقت تیسرے اوپنر کے طور پر ون ڈے اور ٹی20فارمیٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے شرجیل خان کو "فیورٹ" سمجھا جارہا ہے۔ شاید اسی لیے پاکستان کرکٹ بورڈ نے نے بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کے لیے شرجیل کو این او سی جاری نہیں کیا جبکہ دوسری جانب محمد حفیظ بھی اس پوزیشن کے لیے مضبوط امیدوار تصور کیے جارہے ہیں جنہیں ویسٹ انڈیز کے خلاف سائیڈ میچ میں بھی کھلایا گیا اور وہ اپنی فٹنس ثابت کرنے کے لیے فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ البتہ انگلینڈ کے دورے پر ناکام رہنے والے شان مسعود کے لیے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جانے والی ٹیم میں جگہ حاصل کرنا کافی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

جہاں ایک طرف پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ٹیسٹ سیریز کھیلی جارہی ہے، وہیں پاکستانی میدانوں پر ملک کے سب سے معتبر ٹورنامنٹ قائد اعظم ٹرافی میں 16 ٹیمیں برسرپیکار ہیں ۔اب تک کھیلے گئے مقابلوں میں واپڈا کی نمائندگی کرنے والے کامران اکمل صرف سات اننگز میں 97.66 کے اوسط سے 586 رنز بنا چکے ہیں، وہ بھی تین سنچریوں اور اتنی ہی نصف سنچریوں کی مدد سے۔ان سات اننگز میں کامران اکمل کا اسکور 115، 77، 7، 103، 74، 116*، 94رہا ہے جبکہ وکٹوں کے عقب میں 21 کیچز کے ساتھ وہ سرفہرست وکٹ کیپر بھی ہیں۔ یہ اعدادوشمار کامران اکمل کو رواں سیزن کا کامیاب ترین کھلاڑی ثابت کررہے ہیں اور یہی وہ وقت ہے جب اس تجربہ کار وکٹ کیپر بیٹسمین کو اس کی عمدہ فارم کا صلہ دیا جاسکتا ہے۔

2010ء میں آخری مرتبہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے 34 سالہ کامران اکمل کو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے دوروں کے لیے نہ صرف تیسرے اوپنر کے طور پر منتخب کیا جاسکتا ہے بلکہ کامران کی موجودگی سے دوسرے وکٹ کیپر کی بھی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ کامران اکمل کے لیے آسٹریلیا کی کنڈیشنز آئیڈیل ثابت ہوسکتی ہیں کیونکہ دائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والا کامران کٹ اور پُل شاٹس کا دلدادہ ہے اور یہی شاٹس آسٹریلیا کی وکٹوں پر کامیابی کی ضمانت ثابت ہوتے ہیں ۔ موجودہ سلیکشن کمیٹی کے سربراہ انضمام الحق بھی کامران اکمل کی صلاحیتوں سے پوری طرح واقف ہیں اور "انضی" کے کپتانی کے دنوں میں پاکستانی ٹیم کے اہم ترین کھلاڑیوں میں سے ایک کامران اکمل بھی تھا جس نے 2005ء میں انضمام کی کپتانی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف آسٹریلیا میں اپنی پہلی ون ڈے سنچری اسکور کی تھی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ آسٹریلیا کی باؤنسی وکٹوں پر شرجیل خان کو بھیجنا چاہتا ہے جس نے محدود اوورز کے فارمیٹس میں تو اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے مگر مشکل کنڈیشنز میں تکنیکی طور پر کمزور اوپنر کو میدان میں اتارنا عقلمندی نہیں ہے۔ ماضی میں یہ تجربہ ناصر جمشید کے ساتھ بھی کیا گیا تھا جسے بھارت میں ون ڈے سیریز کے دوران غیر معمولی پرفارمنس کا صلہ جنوبی افریقہ میں ٹیسٹ کیپ کی صورت میں دیا گیا مگر وہ سیریز ناصر جمشید کے ٹیسٹ کیرئیر کی پہلی اور آخری سیریز ثابت ہوئی۔

انگلینڈ میں ناقص کارکردگی نے محمد حفیظ کا کیس کمزور کردیا ہے مگر پی سی بی میں اب بھی ایسے افراد موجود ہیں جو حفیظ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے دوروں پر بھیجنے کے لیے اپنی کوششیں کررہے ہیں ۔ محمد حفیظ کی حالیہ ناکامی کے بعد شرجیل خان کے لیے راستہ کھلا ہے مگر بائیں ہاتھ کے جارح مزاج اوپنر کی بجائے کسی تجربہ کار کھلاڑی پر بھروسہ کرنا مناسب ہوگا اور کامران اکمل نے بروقت ڈومیسٹک سیزن میں عمدہ کارکردگی دکھاتے ہوئے خود کو اس پوزیشن کے لیے سلیکٹرز کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ اگر پاکستانی بیٹنگ لائن کو مضبوط بنانے کے لیے فیصلہ کیا جاتا ہے تو پھر کامران اکمل کو تیسرے اوپنر کے طور پر منتخب ہونا چاہیے کیونکہ اس طویل دورے میں کامران اکمل کو سرفراز کے بیک اَپ کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ کامران اکمل کی قومی ٹیم میں واپسی سرفراز احمد پر دباؤ بڑھا دے جو کم بیک کرنے کے بعد کسی ’’ڈپٹی‘‘ کے دباؤ سے آزاد ہوکر کھیل رہا ہے کیونکہ محمد رضوان کی موجودگی سے سرفراز پر وہ دباؤ نہیں پڑ رہا جو کامران کی واپسی سے پڑ سکتا ہے۔ کامران اکمل فائٹر کھلاڑی ہے جس نے پچھلے چھ برسوں میں ایک مرتبہ بھی ہمت نہیں ہاری اور لگتا ہے کہ اس مرتبہ وہ آخری رکاوٹ عبور کرلے گا!

Kamran-Akmal