انضی کی ’’کمیٹی ‘‘روایتی نکلی!!

0 1,077

چیف سلیکٹر کی حیثیت سے مجھے انضمام الحق سے زیادہ امیدیں نہیں تھیں کیونکہ انضی جیسے بڑے کھلاڑی سے اگر کوچنگ کے میدان میں فائدہ اُٹھایا جاتا تو مناسب ہوتا مگر سلیکشن کمیٹی کے دیگر تینوں اراکین توصیف احمد، وسیم حیدر اور وجاہت اللہ واسطی ماضی قریب میں ڈومیسٹک کرکٹ میں پوری طرح متحرک رہے ہیں اور مختلف ٹیموں کی یہ کوچنگ بھی کرتے رہے ہیں۔ اس لیے یہ تینوں سابق کرکٹرز پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ سے پوری طرح واقف ہیں۔ اس لیے یہ امید تھی کہ یہ تینوں اراکین انضمام الحق کو درست مشورے دیں گے اور اس بنیاد پر ناصرف بہترین دستیاب کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جاسکے گا بلکہ ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے والے کھلاڑیوں کو بھی ان کی پرفارمنس کا پورا صلہ ملے گا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا اور سلیکشن کے معاملات ویسے ہی چل رہے ہیں جیسا کہ ماضی میں روایتی سلیکشن کمیٹیاں چلا رہی تھیں۔

گزشتہ شب دورہ نیوزی لینڈ کیلئے پاکستان کے ٹیسٹ اسکواڈ کا اعلان ہوا ہے جس میں زیادہ تبدیلیاں نہیں کی گئیں بلکہ کم و بیش وہی کھلاڑی منتخب ہوئے ہیں جو ویسٹ انڈیز کیخلاف ہوم سیریز میں کھیل رہے ہیں مگر جو دو تبدیلیاں کی گئی ہیں اُن پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔چار رکنی سلیکشن کمیٹی نے اظہر علی اور سمیع اسلم کیساتھ تیسرے اوپنر کے طور پر شرجیل خان کو منتخب کیا گیا ہے جبکہ تجربہ کار ذوالفقار بابر کو ڈراپ کرکے یاسر شاہ کیساتھ دوسرے اسپنر کی تمام تر ذمہ داری نوجوان آل راؤنڈر محمد نواز کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔

میں ہمیشہ سے شرجیل خان کی بیٹنگ کا مداح رہا ہوں اور گزشتہ چھ برسوں میں بارہا یہ باور کروانے کی بھی کوشش کی کہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے جارح مزاج اوپنر کو محدود اوورز کے فارمیٹس میں قومی ٹیم میں مستقل جگہ دی جائے جبکہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی شرجیل خان نے کچھ بڑی اننگز کھیل رکھی ہیں مگر شرجیل خان کو صرف اس بنیاد پر نیوزی لینڈ کے ٹور کیلئے ٹیسٹ ٹیم میں جگہ نہیں دی جاسکتی کہ اس کی واحد خوبی اسٹروک کھیلنا ہے ۔

مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ ماضی میں شرجیل خان کی فرسٹ کلاس ٹیم کے کوچ اور موجودہ سلیکٹر وجاہت اللہ واسطی نے بھی شرجیل کو ٹیسٹ ٹیم میں رکھنے کی مخالفت نہیں کی جو اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ شرجیل خان کو نیوزی لینڈ یا آسٹریلیا میں ٹیسٹ میچز کیلئے منتخب کرنا نہ صرف غلط فیصلہ ہے بلکہ بائیں ہاتھ کے بیٹسمین کے مستقبل سے بھی کھیلنے کے مترادف ہے۔جن لوگوں کو شرجیل خان کا اسٹروک پلے دکھائی دے رہا ہے کہ وہ نیوزی لینڈ میں کامیاب ہوگا تو انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ نیوزی لینڈ میں وکٹوں پر صرف باؤنس نہیں ہوگا بلکہ وہاں گیند سوئنگ بھی ہوتی ہے اور نئے گیند سے سازگار کنڈیشنز میں ٹرینٹ بولٹ، ٹم ساؤتھی اور دیگر کیوی پیسرز کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوگا جبکہ انگلینڈ میں ون ڈے سیریز کے دوران شرجیل کو انگلش پیسرز کے سامنے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

تین سال قبل یہ بدترین تجربہ ناصرجمشیدکیساتھ جنوبی افریقہ میں کیا گیا جسے ڈیل اسٹین اینڈ کمپنی کے آگے ڈال دیا گیا تھا ۔ اگر دونوں ٹیسٹ میچز سمیع اسلم اور اظہر علی ہی کھیلیں تو پھر ٹھیک ہے کہ شرجیل کو تجربہ حاصل کرنے کیلئے نیوزی لینڈ بھیجا جارہا ہے مگر نیوزی لینڈ میں شرجیل کو ٹیسٹ کیپ پہنانا غلط فیصلہ ہوسکتا ہے۔

محمد نواز کو نیوزی لینڈ کے ٹور کیلئے آل راؤنڈر سے بڑھ کر دوسرے اسپنر کے طور پر منتخب کیا گیا ہے جو ویسٹ انڈیز کیخلاف پانچ اننگز میں بالنگ کرتے ہوئے پانچ وکٹیں لینے میں کامیاب ہواہے جبکہ بیٹنگ میں دو مرتبہ غیر ذمہ دارانہ انداز میں اپنی وکٹ گنوانے والے محمد نواز نے ابھی تک ڈومیسٹک کرکٹ میں کھیلی گئی اننگز کی جھلک نہیں دکھائی۔ محمد نواز باصلاحیت نوجوان اور تابناک مستقبل کا حامل کھلاڑی ہے مگر پہلی سیریز میں بالنگ کے شعبے میں واجبی سی کارکردگی کے بعد نواز کو یاسر شاہ کیساتھ دوسرے اسپنر کا درجہ دینا بالکل بھی مناسب نہیں جبکہ آپ کے پاس ذوالفقار بابر جیسا تجربہ کار بالر بھی موجود ہو۔ بائیں ہاتھ کی اسپن بالنگ میں نواز اور ذوالفقار کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے بلکہ اقبال قاسم کے بعد پاکستان کرکٹ نے ذوالفقار بابر سے بہتر لیفٹ آرم اسپنر پیدا نہیں کیا مگر اس کے باوجود تجربہ کار اسپنر کیساتھ ایسا سلوک کیا جارہا ہے جسے انگلینڈ میں کسی بھی ٹیسٹ میں موقع نہیں دیا گیا اور نیوزی لینڈ کے ٹور سے ڈراپ کردیا گیا ہے۔ ذوالفقار کو ڈراپ کرکے یہ پیغام بھی دیا جارہا ہے کہ اب ٹیسٹ ٹیم میں ایسے کھلاڑیوں کو شامل کیا جائے گاجنہیں ’’مِنی‘‘ آل راؤنڈرز کہا جاتا ہے۔

نواز کی موجودگی سے پاکستان کو پانچویں بالر اور چھٹے بیٹسمین کا آپشن ملے گا اور وہ مقصد پورا ہوجائے گا جو انگلینڈ میں افتخار احمد کی موجودگی سے پورا نہیں ہوسکا گا مگر اس کیلئے ایک اسپیشلسٹ اسپنر کی قربانی ...کیا یہ مذاق نہیں ہے؟دوسری طرف شرجیل خان کی ٹیسٹ اسکواڈ میں موجودگی بھی یہ ظاہر کررہی ہے کہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں چاہے آپ رنز کے انبار لگائیں یا وکٹوں کے ڈھیر ...ٹیسٹ ٹیم میں جگہ حاصل کرنے کیلئے ٹی20اور ون ڈے انٹرنیشنلز میں پرفارم کرنا ضروری ہے!!

Zulfiqar-Babar