بیٹسمینوں پر’’مصنوعی‘‘دباؤ کیوں ہے؟

1 1,041

آج لاہور میں جس طرح ’’مصنوعی‘‘ دُھند نے سردی میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ’’پت جھڑ‘‘ کا سماں پیدا کیا بالکل اسی طرح شارجہ کے گرم موسم میں پاکستانی بیٹسمین ویسٹ انڈیز کی درمیانے درجے کی بالنگ کے سامنے ’’مصنوعی‘‘ دباؤ طاری کرتے ہوئے اپنی وکٹوں کی قربانی دیتے رہے۔ جس کے بعد اب چوتھے دن کا کھیل ختم ہونے پر ویسٹ انڈیز کو محض 39 رنز درکار ہیں جبکہ پاکستانی بالرز کیلئے پانچ وکٹوں کا حصول کسی امتحان سے کم نہیں ہوگا۔ پانچ وکٹوں کیلئے شاید ہم وطنوں کو پانچ کروڑ سے بھی زیادہ دعائیں کرنا پڑیں۔

1993ء میں پاکستان نے ہملٹن میں نیوزی لینڈ کیخلاف 127رنز کے ہدف کا کامیابی سے دفاع کرتے ہوئے میزبان ٹیم کو محض 93 رنز پر ڈھیر کیا تھا مگر پاکستان کی موجودہ ٹیم میں وسیم اور وقار جیسا کوئی بھی بالر موجود نہیں ہے جو لگاتار بیس، بیس اوورز کا اسپیل کرواتے ہوئے ناممکن کو ممکن کردے۔ 90ء کے عشرے میں پاکستان نے ایسے کئی ٹیسٹ اور ون ڈے میچز جیتے ہیں جس میں بیٹسمینوں نے مایوس کیا ہوکیونکہ اُس دور میں گرین شرٹس کی بالنگ لائن ورلڈ کلاس تھی لیکن اب صورتحال قدرے مختلف ہے۔ ماضی قریب میں پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کی کامیابیوں کی بنیاد بیٹنگ لائن کی عمدہ کارکردگی تھی جس کے سہارے بالرز کو ایک اچھے ہدف کا دفاع کرنے کا موقع مل جاتا تھا مگر شارجہ میں بیٹسمینوں نے دونوں اننگز میں دھوکہ دیا اور تمام تر ذمہ داری بالرز پر آگئی ہیں جن کیلئے شارجہ کی وکٹ پر 153رنز کا دفاع کرنا آسان کام نہیں ہے۔

پاکستان کی بیٹنگ لائن شارجہ ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں ریت کی دیوار ثابت ہوئی ہے اور جس طرح وکٹیں پت جھڑ کے پتوں کی طرح گری ہیں وہ افسوس ناک بھی ہے اور تشویش ناک بھی کیونکہ نہ ہی ویسٹ انڈیز کی بالنگ لائن میں اتنا دم خم ہے کہ وہ پاکستان کی مضبوط بیٹنگ لائن کو اتنی آسانی سے دو مرتبہ آؤٹ کردیں اور نہ ہی شارجہ کی وکٹ ایسی خطرناک تھی جہاں سوئنگ ہوتی ہوئی گیندیں بیٹسمینوں کی زندگی اجیرن کردیں۔ یہ سراسر بیٹسمینوں کی غیر ذمہ داری ہے جس نے پاکستانی ٹیم کو ویسٹ انڈیز جیسی ٹیم کیخلاف ’’اپنی‘‘ کنڈیشنز میں شکست کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ پہلی اننگز کا سنچری میکر کریگ بریتھ ویٹ اب بھی کریز پر موجود ہے جو مجموعی طور پر 186رنز بنانے کے باوجود کسی پاکستانی بالر کے قابو نہیں آسکا۔

کسی زمانے میں شارجہ پاکستان کا قلعہ ہوا کرتا تھا مگر اس میدان پر ون ڈے ا نٹرنیشنلز میں تاریخی فتوحات حاصل کرنے والی پاکستانی ٹیم کو ٹیسٹ کرکٹ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے جہاں 2002ء میں آسٹریلیا نے پاکستانی بیٹسمینوں کو دونوں اننگز میں محض 59 اور 53 پر ڈھیر کیا تھا جبکہ دو برس قبل نیوزی لینڈ نے اس میدان پر پاکستان کو اننگز کی شکست سے دوچار کیا تھا ۔شارجہ میں جب بھی پاکستان کی بیٹنگ لائن ناکامی سے دوچار ہوئی ہے تو شکست نے گرین شرٹس کے گلے میں بانہیں ڈال دی ہیں اور اب یوں محسوس ہورہا ہے کہ کل ویسٹ انڈیز کی ٹیم بھی ایک اہم اور تاریخی فتح اپنے کرلے گی جو 200سے کم رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے کبھی بھی ناکامی کا شکار نہیں ہوئی!

شارجہ کی شیشے جیسے چمکتی وکٹ پر جب میچ کے پہلے اوور میں پاکستان کے دو کھلاڑیوں کھاتہ کھولے بغیر پویلین روانہ ہوئے تو گرین شرٹس کیلئے خطرے کی گھنٹی بج گئی تھی۔ شارجہ ٹیسٹ میں ایک اننگز میں ایک اوپنر ناکام ہوا ہے جبکہ ون ڈاؤن پوزیشن پر کھیلنے والے اسد شفیق جیسے بیٹسمین کو دونوں باریوں میں صفر کا سامنا کرنا پڑا۔مصباح اور یونس نے پہلی اننگز میں نصف سنچریاں اسکور کی تو دوسری باری میں دونوں بیٹسمین مل کر چار رنز ہی بنا سکے۔ سرفراز احمد نے دونوں اننگز میں رنز ضرور کیے مگر دوسری اننگز میں جس انداز میں ’’سیفی‘‘ نے سلپ فیلڈر کو کیچ پریکٹس کرواتے ہوئے اپنی وکٹ گنوائی ہے وہ کسی بھی طور پر اچھا نظارہ نہیں تھا۔ مجموعی طور پر پاکستانی بیٹسمینوں نے حد درجہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے جس کے سبب شارجہ ٹیسٹ اب پاکستان کے ہاتھ سے تقریباً پوری طرح نکل چکا ہے اور کل کسی بالر کی غیر معمولی پرفارمنس ہی پاکستان کو فتح سے ہمکنار کرواسکتی ہے۔

پاکستانی بیٹسمینوں نے دبئی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں بھی اسی طرح عجلت اور غیر ذمہ داری مگر پہلی اننگز میں اسکور کیا گیا بڑا مجموعہ گرین شرٹس کو شرمندگی سے بچانے کا سہارا بن گیا مگر شارجہ ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں معیار سے کم تر کارکردگی نے پاکستانی ٹیم کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے ۔دورہ نیوزی لینڈ سے قبل پاکستانی بیٹسمینوں نے جان بوجھ کر خود پر ’’مصنوعی‘‘ دباؤ طاری کرلیا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ پاکستانی بالرز کل حیران کن طور پر میچ جتوابھی دیں مگر پاکستانی بیٹسمینوں کے اعتماد میں کو کمی آئی ہے اس کا ازالہ ممکن نہیں کیونکہ نیوزی لینڈ اور پھر آسٹریلیا کی وکٹوں پر مضبوط بالنگ لائن کیخلاف یہ ’’مصنوعی‘‘ دباؤ حقیقی دباؤ میں بدل جائے گا اور یہ بات شارجہ ٹیسٹ کے نتیجے سے زیادہ ناقابل یقین ثابت ہوسکتی ہے۔