دیوندر بشو کے لیے عظیم باؤلر لانس گبز کی شاباش

0 1,067

پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو توقعات کے برعکس ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ میں تو کلین سویپ کردیا لیکن انگلستان اور آسٹریلیا کو تمام مقابلوں میں چت کرنے والا ویسٹ انڈیز کو وائٹ واش نہ کر سکا۔ شارجہ میں کھیلا گیا آخری ٹیسٹ ویسٹ انڈیز نے پانچ وکٹوں سے جیتا اور ایک مایوس کن سیریز کا اختتام فاتحانہ انداز میں کیا۔ پاکستان سیریز ضرور جیتا لیکن تشویش کے ساتھ۔

ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کی کامیابی میں جہاں اظہر علی، یاسر شاہ اور یونس خان سمیت دیگر کھلاڑیوں کا حصہ رہا وہیں ویسٹ انڈیز کی آخری کامیابی کا سہرا کریگ بریتھویٹ سمیت دیوندر بشو کے سر بھی باندھا جا سکتا ہے۔ بشو نے 27 کے اوسط سے سیریز میں 18 وکٹیں حاصل کیں جو 1974ء میں بھارت کے خلاف لانس گبز کی 21 وکٹوں کے بعد کسی بھی ویسٹ انڈین گیند باز کی بہترین کارکردگی ہے۔

سیریز میں بشو کی ایک بڑی کامیابی اننگز میں 49 رنز دے کر 8 کھلاڑیوں کو شکار بنانا رہا۔ یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ یہ بیرون ملک کسی بھی کیریبیئن باؤلر کی بہترین کارکردگی تھی۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ شکست خوردہ دستے نے بشو کی کارکردگی کی وجہ سے اپنی عزت بچائی۔ انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف بھی 80 رنز کے عوض 6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

تسلسل سے اچھی کارکردگی کی وجہ سے ویسٹ انڈیز کے عظیم سابق آف اسپنر لانس گبز نے بشو کو نوجوان گیند بازوں کے لئے حوصلہ افزاء مثال قرار دیا ہے۔ نوجوانوں کو بشو کی پیروی کا مشورہ دیتے ہوئے لانس گبز نے کہا کہ "بشو بیرون ملک آٹھ شکار کرنے والے اس گروپ میں شامل ہوئے ہیں، جس میں میرے علاوہ ایلف ویلنٹائن اور جیک نوریجا شامل ہونا ہیں، جو معمولی بات نہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے بشو باؤلنگ کے حوالے سے کچھ مشکلات کا شکار تھے، تو میں نے ان کی علاج اور اصلاح کی بھرپور کوشش کی جس کی بدولت وہ اب دوبارہ 40 سے زیادہ اوورز کروا سکتے ہیں۔"

گزشتہ دہائی سے ویسٹ انڈیز کرکٹ مسلسل تنزلی کا شکار ہے مگر اسپن باؤلنگ واحد شعبہ ہے، جس نے ڈومیسٹک اور بین الااقوامی سطح پر متاثر کن کردار ادا کیا ہے، جس میں دیوندر بشو، سنیل نرائن اور شین شلنگ فرڈ نمایاں ہیں۔"یہ بہت حیران کن بات ہے کہ بشو اور نرائن بالترتیب 2011ء اور 2012ء میں آئی سی سی ایمرجنگ پلیئر آف دی ائیر بن چکے ہیں مگر قومی سلیکٹرز نے سوائے سری لنکا میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کبھی ان دونوں کو اکٹھا کھیلنے کا موقع نہیں دیا جو زیادتی ہے۔ حالانکہ ان دونوں کا شمار موجودہ کرکٹ کے خطرناک ترین اسپنرز میں ہوتا ہے۔ اس لئے مجھے یقین ہے کہ انہیں اکٹھے کھیلنے کا موقع فراہم کیا جائے تو یہ کالی آندھی کا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔"