کراچی اور لاہور کو کیا ہوگیا ہے؟

0 1,031

پاکستان کرکٹ کے ابتدائی دنوں سے لے کر 80ء کی دہائی تک اس کھیل کا مرکز دو شہر تھے یعنی کراچی اور لاہور۔ ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں ان دو شہروں میں کھیل کا معیار بہت بلند تھا اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر انہی دو شہروں کے کھلاڑی پاکستانی ٹیم تک رسائی حاصل کرتے تھے۔ 90ء کے عشرے میں پنجاب کے چھوٹے شہروں سے وقار یونس، انضمام الحق، مشتاق احمد جیسے کھلاڑیوں کی آمد ہوئی تو یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب کراچی اور لاہور کے علاوہ پاکستان کے دیگر علاقوں بالخصوص پنجاب کے چھوٹے شہروں سے بھی صلاحیت سامنے آنا شروع ہوگئی ہے۔ آنے والے برسوں میں راولپنڈی اور پشاور نے بھی ٹیسٹ کھلاڑی پیدا کیے مگر لاہور اور کراچی کی کرکٹ کا معیار اپنی جگہ برقرار تھا لیکن اب کچھ برسوں سے اس معیار میں تیزی کیساتھ تنزلی آئی ہے جس کی گواہی پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ دے رہی ہے۔

حالیہ قائد اعظم ٹرافی میں خالد لطیف، خرم منظور، محمد سمیع جیسے کھلاڑیوں سے لیس کراچی بلیوز کی ٹیم تمام ریجنز میں سب سے کم تر کارکردگی دکھانے کے بعدتنزلی کا شکار ہوکر اگلے سیزن کیلئے گریڈ ٹو میں چلی گئی ہے جو ماضی میں سب سے زیادہ قائد اعظم ٹرافی جیتنے والی ٹیم ہے جبکہ کچھ عرصہ قبل اس ٹیم نے قومی ٹی20کا ٹائٹل بھی اپنے نام کیا ہے۔ اگر قذافی اسٹیڈیم کی مردہ وکٹ پر لاہور وائٹس کی ٹیم اچانک ڈھے کرمیچ کراچی وائٹس کو ’’تحفے‘‘ میں پیش نہ کرتی تو کراچی وائٹس کیلئے سپر ایٹ راؤنڈ تک رسائی ناممکن ہوچکی تھی کیونکہ فاٹا کی ٹیم تین فتوحات حاصل کرنے کے بعد چوتھی پوزیشن پر موجود تھی جس کے چند ایک کھلاڑیوں نے غیر معمولی کارکردگی دکھاتے ہوئے بڑی ٹیموں کو زیر کرنے میں دیر نہیں لگائی۔دوسری جانب لاہور کی ٹیموں کا حال بھی اتنا اچھا نہیں ہے جنہیں مختلف میچز میں عمر اکمل، سمیع اسلم اور سعد نسیم جیسے کھلاڑیوں کی خدمات حاصل تھیں مگر یہ دونوں ٹیمیں بھی سپر ایٹ راؤنڈ تک پہنچنے میں ناکام رہی ہیں لیکن لاہور وائٹس نے کراچی وائٹس کی بھرپور انداز سے ’’مہمان نوازی‘‘ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ لاہور ی ’’زندہ دلان‘‘ہیں!

ماضی میں کراچی اور لاہور کی ٹیموں کو زیر کرنا آسان نہیں ہوتاتھا لیکن اب یہ ٹیمیں آسانی سے زیر ہوجاتی ہیں۔ اگر قذافی اسٹیڈیم پر مردہ وکٹیں تیار نہ کی جاتیں تو ممکن ہے کہ لاہور بلیوز کی ٹیم کی شکستوں میں ایک دو کا اضافہ ہوچکا ہوتاجبکہ لاہور وائٹس نے اس ایونٹ میں چار شکستوں کا سامنا کیا ہے۔اگر لاہور بلیوز نے اس ایونٹ میں حبیب بینک اور کراچی بلیوز نے پی آئی اے کیخلاف کامیابی حاصل کی مگر مجموعی طور پر لاہور اور کراچی کو قائد اعظم ٹرافی میں سات سات شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کراچی اور لاہور کی کارکردگی سے یہ بھی ثابت ہوگیاکہ ٹی20 ایونٹس میں بڑے کھلاڑیوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کامیابیاں حاصل کرنے والی ان ٹیموں کو جب نوجوان کھلاڑیوں پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے تو ان کی صلاحیت کا پول کھل جاتا ہے۔

حالیہ برسوں میں کراچی اور لاہور کی کرکٹ کے معیار میں تیزی سے کمی آئی ہے اور جو شہر ماضی میں ایک کے بعد ایک اچھے کھلاڑی فراہم کررہے تھے اب وہاں صلاحیت کا کال دکھائی دیتا ہے۔لاہور سے تعلق رکھنے والے سمیع اسلم اور بابر اعظم حالیہ برسوں میں جونیئر کرکٹ سے اُبھرنے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن کراچی نے اسد شفیق یا شان مسعود کے بعد کوئی قابل ذکر کھلاڑی فراہم نہیں کیا جو انٹرنیشنل سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرنے میں کامیاب ہوا ہو۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان شہروں میں صلاحیت ختم ہوگئی ہے لیکن کلب کرکٹ کا فرسودہ نظام اور من پسند کھلاڑیوں کو فرسٹ کلاس کرکٹ کھلانے کی روش نے ان دونوں شہروں کی کرکٹ کو تباہ کرنا شروع کردیا ہے۔

کراچی اور لاہور پاکستان میں کرکٹ کی نرسریاں ہیں اور ان کے معیار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ ماضی میں ان دونوں شہروں کی ٹیموں میں اکثر اوقات ٹیسٹ کھلاڑیوں کو بھی باہر بیٹھنا پڑتا تھا کیونکہ ٹیم میں جگہ بنانے کیلئے مقابلہ بہت سخت ہوتا تھا اور اب صورتحال یہ ہے کہ لاہور کی ٹیموں میں ’’مہمان‘‘ کھلاڑی کھیل رہے ہیں جو اس شہر میں باصلاحیت کھلاڑیوں کے فقدان کی علامت ہے۔

ان شہروں کی ایسوسی ایشنز جنہیں اب ریجنل ایسوسی ایشن کا درجہ حاصل ہوگیا ہے‘ اپنے فرائض احسن طریقے سے سرانجام نہیں دے رہیں کیونکہ کرکٹ کے فروغ کیلئے کام کرنے والے منتظمین کی بجائے ایسوسی ایشن میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے جو نہ میرٹ پر کھلاڑی سامنے لانا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنے شہروں میں اس کھیل کے فروغ کیلئے عملی اقدامات کرتے ہیں بلکہ ان مقصد منظور نظر کلبوں کی خوشنودی حاصل کرکے اپنی نشستیں پکی کرنا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو صرف ’’ووٹ‘‘ کے حصول کیلئے کام کرنے والے کراچی اور لاہور کی کرکٹ کو ’’لوٹ‘‘ رہے ہیں!!

Karachi-Blues