ڈومیسٹک کرکٹ کے ’’ہیرو‘‘ کہاں جائیں؟

0 1,065

قائد اعظم ٹرافی پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ ہے جس میں چار روزہ فرسٹ کلاس میچزکھیلے جاتے ہیں اور تین سے چار ماہ تک جاری رہنے والے ان مقابلوں میں مسلسل اچھی کارکردگی دکھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔اگر کوئی کھلاڑی ان مقابلوں میں مسلسل دو تین سیزنوں میں اچھی کارکردگی دکھانے کے باوجود قومی ٹیم تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو پھر اس ایونٹ کی اہمیت، سلیکشن کمیٹی کی اہلیت اور پی سی بی کی ترجیحات پر سوالات اُٹھنا شروع ہوجاتے ہیں کیونکہ ایک طرف دیگر ڈومیسٹک ایونٹس کے مقابلے میں سب سے کم معاوضہ لے کر قائد اعظم ٹرافی میں کھیلنے اور پرفارم کرنے والے کھلاڑیوں کے سامنے جب محض ایک ٹی20 ٹورنامنٹ میں اچھی کارکردگی کی بنیاد پر جب کوئی کھلاڑی اپنے سینے پر سنہری ستارہ سجا لیتا ہے تو ان کھلاڑیوں کے دلوں پر کیا بیتتی ہے یہ شاید ہی کوئی جان سکے۔اتنی بڑی زیادتی کے باوجود انہیں خاموش رہتے ہوئے اگلے سیزن کی تیاری کرنا ہوتی ہے کیونکہ زبان کھولنے کے ’’جرم‘‘ میں زبان ہمیشہ کیلئے کاٹ دی جاتی جس کے بعد یہ ’’گونگے‘‘ کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ کی خوراک بن کر رہ جاتے ہیں۔

قائد اعظم ٹرافی کا پہلا مرحلہ کل مکمل ہوا ہے اور سات میچز کے اختتام پر کے آر ایل کا فاسٹ بالر محمد عباس 51وکٹوں کیساتھ بالنگ ٹیبل پر سرفہرست ہے جس نے پچھلے سیزن میں بھی سب سے زیادہ فرسٹ کلاس وکٹیں حاصل کی تھیں مگر پاکستان اے کی جانب سے انگلینڈ کے ٹور پر اس بالر کو کسی تین یا چار روزہ میچ میں موقع ہی نہیں دیا گیا جسے کوچز یہ کہہ کر تسلیاں دیتے رہے کہ’’ تم ہمارے سب سے اچھے بالر ہو‘‘مگر میچز وہ بالرز کھیلتے رہے جن کا تعلق کوچز کے اداروں سے تھا!

سوئی سدرن گیس کا اوپنر آصف ذاکر اس وقت اپنی بہترین فارم میں ہے جس نے ایک ڈبل سنچری سمیت 602رنز سو سے زائد کی اوسط کیساتھ بنائے ہیں مگر کراچی سے تعلق رکھنے والے بیٹسمین کو محض اے ٹورز پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ کے آر ایل کا عبدالرحمن مزمل اس بیٹنگ ٹیبل پر ٹاپ پوزیشن پر ہے جسے اے ٹیم کا ٹور کروایا گیا ہے جبکہ ساڑھے پانچ برس قبل دو ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے والا عثمان صلاح الدین رواں سیزن میں دھماکے کیساتھ واپس آیا ہے جس نے نیشنل بنک میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد دو سنچریوں سمیت 87.43کی اوسط سے612رنز بنا کر ٹیبل پر دوسرا نمبر حاصل کیا ہے۔

کے آر ایل کا کپتان سعید انور جونیئر (592 رنز)اور کامران اکمل(588)بھی اپنا جوش ٹھنڈا ہونے نہیں دے رہے ۔اگر بالنگ کی بات کریں تو 46وکٹوں کیساتھ دوسرے نمبر پر موجود تابش خان نے پہلی مرتبہ ایسی کارکردگی نہیں دکھائی بلکہ کراچی کا فاسٹ بالر مسلسل کئی سیزنوں سے پرفارم کرنے کے باوجود قومی ٹیم سے دورہے۔راولپنڈی کی نمائندگی کرنے والے پیسرعابد حسن نے اپنے پہلے مکمل سیزن میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ فاٹا کا 22سالہ طویل القامت فاسٹ بالر عرفان اللہ شاہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جس نے محض 18.50کی اوسط سے 32وکٹیں لیتے ہوئے تن تنہا اپنی ٹیم کو راولپنڈی کیخلاف فتح دلوائی ۔ اس کے علاوہ کراچی وائٹس کے عدیل ملک (31وکٹیں)اور لاہور بلیوز کے بلاول اقبال (30)کی بالنگ میں کاٹ دکھائی دی ۔ اے ٹیم کی نمائندگی کرنے والے میر حمزہ(30)کو بھی تابناک مستقبل کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ اسلام آبادکا شہزاد اعظم بھی تسلسل کیساتھ کارکردگی دکھا رہا ہے۔ پی آئی اے کی نمائندگی کرنے والا آف اسپنر طاہر خان ’’صاف ستھرے‘‘ بالنگ ایکشن کا مالک ہونے کیساتھ ساتھ تجربے سے بھی لیس ہے مگر ڈومیسٹک کرکٹ کے یہ ہیروز بدقسمتی سے سلیکشن کمیٹی کی نظروں سے کوسوں دور ہیں۔

یہ درست ہے کہ ان میں سے اکثر کھلاڑی اپنی 30ویں منا چکے ہیں یا پھر اس کے قریب ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ایسے کھلاڑیوں کو نظر انداز کردیا جائے۔اگر پاکستان کی موجودہ ٹیسٹ ٹیم پر بھی نظر ڈالی جائے تو اس میں اکثر ایسے کھلاڑی ہیں جو 30پلس ہونے کیساتھ ساتھ ایک عرصہ ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے کے بعد ٹیسٹ ٹیم میں آئے ہیں۔ کپتان مصباح الحق،اظہر علی، یاسر شاہ، ذوالفقار بابر، سرفراز احمد، اسد شفیق اس کی مثال ہیں۔ اگر پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم تجربہ کار کھلاڑیوں کی موجودگی سے آئی سی سی رینکنگ میں سرفہرست ہوسکتی ہے تو پھر ڈومیسٹک کرکٹ کے تجربہ کار کھلاڑیوں پر بھروسہ کیوں نہیں کیاجاتا جو تسلسل کیساتھ عمدہ کارکردگی دکھارہے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل سلیکشن کمیٹی کے سربراہ انضمام الحق نے ’’انوکھا ‘‘اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی اے ٹیم میں 30سال سے زائد عمر کھلاڑیوں کونہیں لیا جائے گا جبکہ دوسری جانب فرسٹ کلاس کرکٹ میں پرفارم کرنے والے 30 پلس کھلاڑیوں کو ٹیسٹ ٹیم میں بھی جگہ نہیں مل رہی تو پھر یہ کھلاڑی کہاں جاکر اپنا سر پٹخیں؟ کم از کم انضمام اوران کے ساتھی وہ جگہ ہی بتا دیں!!

asif-zakir