مکی آرتھر...دو محاذوں پر نبردآزما!!

0 1,090

پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا میں تین روزہ میچ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ٹور کا آغاز ’’فاتحانہ‘‘اندازسے کردیا ہے جس میں پاکستانی بالرز نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا جبکہ بیٹسمینوں کی کارکردگی پر شکوک و شبہات قائم ہیں ۔آسٹریلیا اور انگلش ٹیموں نے ہمیشہ مہمان ٹیموں کا استقبال نفسیاتی حربوں کیساتھ کیا ہے جس میں زیادہ تر نشانہ مخالف ٹیم کے اہم ترین کھلاڑی بنتے ہیں مگر اس مرتبہ کینگروز کے نشانے پر پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر ہیں جو ماضی میں کینگروز کی کوچنگ بھی کرچکے ہیں۔ مکی آرتھر کے چند ’’پرانے شاگرد‘‘ اپنے سابق کوچ پر نفسیاتی حملے کرنے سے کچھ تامل سے کام نہیں لے رہے ہیں جبکہ مکی آرتھر کا ماننا ہے کہ یہ سیریز اُ ن کے اور آسٹریلین ٹیم کے درمیان نہیں ہے بلکہ اس میں دو بہت اچھی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں اس لیے تمام تر فوکس میدان کے اندر ہونے والے مقابلوں پر ہونا چاہیے۔

پاکستانی ٹیم طویل عرصے کے بعد آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز کھیلنے جارہی ہے اور پاکستان کی موجودہ ٹیسٹ ٹیم میں صرف کپتان مصباح الحق ، یونس خان، سرفراز احمد اور محمد عامر کو آسٹریلیا میں پانچ روزہ مقابلوں میں حصہ لینے کا تجربہ حاصل ہے لیکن پاکستان کو یہ ’’برتری‘‘ حاصل ہے کہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر ماضی قریب میں دو سال تک آسٹریلیا اور ڈیڑھ سال تک ریاستی ٹیم کی کوچنگ کرنے کے باعث آسٹریلین کنڈیشنز اور کھلاڑیوں سے مکمل طور پر آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آسٹریلین کھلاڑی پاکستانی کھلاڑیوں پر نفسیاتی حربے آزمانے کی بجائے مکی آرتھر کو ’’ٹارگٹ‘‘ کرنے میں زیادہ ’’افادیت‘‘ محسوس کررہے ہیں۔

مکی آرتھر کو 2013ء میں آسٹریلین ٹیم کی کوچنگ سے سبکدوش کیا گیا تھا جنہوں نے 2011ء میں اپنے عہد کا آغاز کیا تھا۔آرتھر کی کوچنگ میں مچل اسٹارک نے اپنا ٹیسٹ ڈیبیو کیا تو آج کینگروز کا اہم ترین بالر ہے اور آرتھر کی نگرانی میں پروان چڑھنے والے مچل اسٹارک نے ہی زبانی جنگ کا آغاز کیا ہے جس کا کہنا ہے کہ آرتھر کے دور کی نسبت ڈیرن لی مین کی کوچنگ میں آسٹریلین کھلاڑی ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔مچل اسٹارک نے دبے لفظوں میں پاکستانی کھلاڑیوں کو بھی پیغام دے ڈالا کہ مکی آرتھر اپنی سوچ کھلاڑیوں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مکی آرتھر کی کوچنگ میں ڈیوڈ وارنر، عثمان خواجہ، مچل اسٹارک اور ناتھن لائن نے اپنے ٹیسٹ کیرئیر کا آغاز کیا تو یہ چاروں کھلاڑی اس وقت کینگروز کی ٹیم کا مستقل حصہ ہیں۔ مکی آرتھر ان کھلاڑیوں سے اچھی طرح آگاہ ہیں بلکہ ان کھلاڑیوں کو پروان چڑھانے میں آرتھر کا بہت بڑا ہاتھ بھی ہے جبکہ دوسری طرف گابا کی وکٹ بھی آرتھر کیلئے نئی نہیں ہے جہاں پاکستانی ٹیم پہلا ٹیسٹ کھیلے گی۔مکی آرتھر کی یہ ’’خوبیاں‘‘ یقینی طور پر پاکستانی ٹیم کیلئے پلس پوائنٹ ہیں اور اسی لیے آسٹریلین کھلاڑیوں نے مکی آرتھر کو ٹارگٹ کیا ہے ۔مکی آرتھر کو اس قسم کے استقبال کی امید بھی تھی جس کا اظہار انہوں نے اپنے بیانات میں بھی کیا کہ انہیں پتہ تھا کہ آسٹریلیا میں کوئی ان کے گلے میں پھولوں کے ہار نہیں ڈالے گا مگر مکی آرتھر کا اصل امتحان بھی دورہ آسٹریلیا ہی ہے۔ انگلینڈ میں سیریز برابر کرنے کے بعد نمبر ون کا تمغہ اپنے سینے پر سجانے والے کوچ نے ’’ہنی مون پیریڈ‘‘ کا اچھی طرح لطف اُٹھا لیا ہے مگر اب مسلسل تین ٹیسٹ میچز ہارنے کے بعد دورہ آسٹریلیا مکی آرتھر کیلئے کسی بھی طورپر آسان نہیں ہے جنہیں دو محاذوں پر مقابلہ کرنا ہے کیونکہ میدان کے اندر پاکستانی ٹیم کو جتوانے کی ذمہ داری بھی مکی آرتھر کے کندھوں پر ہے اور میدان سے باہر آسٹریلین میڈیا اور کھلاڑیوں کے بیانات کا سامنا کرنا بھی مکی آرتھر کیلئے کسی طور پر بھی آسان نہیں ہوگا۔

پاکستانی ٹیم کی کارکردگی جیسے جیسے خراب ہوتی جارہی ہے اتنی ہی تیزی سے مکی آرتھر کی موجودگی پر انگلیاں اُٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ مکی آرتھر کو اس وقت آسٹریلین کھلاڑیوں سے ’’ٹف ٹائم‘‘ مل رہا ہے لیکن آنے والے دنوں میں اگر پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کیا تو پھرمکی آرتھر کی اہلیت میں پاکستان میں بھی سوالات اُٹھنا شروع ہوجائیں گے کیونکہ مکی آرتھر جیسے ہائی پروفائل اور ’’مہنگے‘‘ کوچ سے جو امیدیں وابستہ کی گئی تھیں وہ پوری نہیں ہورہی ۔

آسٹریلیا میں مکی آرتھر کا استقبال اچھا نہیں ہوا جس کی انہیں امید بھی تھی۔ پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا میں آخری مرتبہ 1995ء میں ٹیسٹ میچ جیتا تھا اور دو عشروں سے گرین شرٹس کو کینگروز کے دیس میں فتح نصیب نہیں ہوئی اس لیے یہ نہ صرف پاکستانی ٹیم بلکہ مکی آرتھر کیلئے بھی بہترین موقع ہے کہ وہ پاکستان کو آسٹریلیا میں فتح دلواتے ہوئے نہ صرف تاریخ بدل دیں بلکہ اپنی اہلیت بھی ثابت کردیں کہ آسٹریلین ٹیم کی کوچنگ کرنے اور آسٹریلیا میں وقت گزارنے سے ملنے والے تجربے سے مکی آرتھر نے پاکستانی ٹیم کو فائدہ پہنچایا ہے۔ لیکن دوسری طرف آسٹریلیا میں مکی آرتھر کی کوچنگ میں اگر پاکستانی ٹیم اچھی کارکردگی نہ دکھا سکی تو پھر پاکستان میں بھی مکی آرتھر کا استقبال پھولوں کے ہاروں سے نہیں ہوگا!