نمبر 8 سے نجات پانے کیلئے ’’نمبر2‘‘ کرکٹ بدلنا ہوگی!

0 1,108

پاکستانی ٹیم ایک طویل عرصے کے بعد آسٹریلیا گئی ہے تو پاکستانی شائقین کرکٹ بھی صبح سویرے اُٹھ کر آسٹریلیا کی وکٹوں پر اپنی ٹیم کو کھیلتا ہوا دیکھنے کے مزے لوٹ رہے ہیں اور برسبین ٹیسٹ میں ’’عمدہ‘‘ پرفارمنس کے بعد ٹیسٹ ٹیم سے اور بھی توقعات وابستہ ہوگئی ہیں مگر یاد رہے کہ اس ٹور کا اختتام پانچ ون ڈے میچز کی سیریز کیساتھ ہوگا جس میں نمبر 8 پوزیشن پر موجودہ پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا کا مقابلہ آسٹریلیا میں کرنا ہے جو عالمی چمپئن ہونے کیساتھ ساتھ آئی سی سی رینکنگ میں بھی سرفہرست ٹیم ہے ۔ اس سیریز کا نتیجہ کیا نکلے گا اس کے بارے میں زیادہ سوچ بچار نہیں کی جاسکتی لیکن یہ بات یقینا فکر مندی کا باعث ہے کہ اگر پاکستانی ٹیم نے ایسی ہی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو پھر شاید ورلڈ کپ 2019ء تک براہ راست رسائی بھی ممکن نہ ہو بلکہ ماضی کی ورلڈ چمپئن ٹیم کو ورلڈ کپ میں حصہ لینے کیلئے کوالیفائنگ راؤنڈ کی مشقت سے گزرنا پڑے۔

صورتحال تشویش ناک ہے اور اس پر چیف سلیکٹر انضمام الحق کی پریشانی بھی بجا ہے جو دورہ آسٹریلیا کیلئے ون ڈے اسکواڈ میں چند ایک اہم تبدیلیاں کرنے جارہے ہیں جس میں دائیں ہاتھ کے ایک تجربہ کار اوپنر کی واپسی کا فیصلہ ہوچکا ہے مگر پاکستانی ٹیم کو نمبر 9پوزیشن سے جان چھڑانے اور ایک مرتبہ پھر ٹاپ ٹیموں کے درمیان جگہ بنانے کیلئے مشکل اور صبر آزما مرحلے سے گزرنا ہوگا لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ابھی تک اس کی تیاریوں کا آغاز نہیں کیا جاسکا۔ انضمام الحق نے ون ڈے ٹیم کو ’’ٹھیک‘‘ کرنے کی ٹھان لی ہے جس میں اب زیادہ سینئر کھلاڑی باقی نہیں رہے مگر محض کھلاڑیوں کی تبدیلی سے وہ پوزیشن دوبارہ حاصل نہیں کی جاسکتی جو چند برس پہلے تک گرین شرٹس کے ہاتھوں میں تھی۔

ڈومیسٹک کرکٹ میں ڈیپارٹمنٹس کے درمیان ون ڈے ٹورنامنٹ جاری ہے جو اب اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا ہے ۔ ٹیسٹ اسکواڈ میں منتخب ہونے والے کھلاڑیوں کے علاوہ تمام صف اول کے کھلاڑی اپنی اپنی ٹیموں کی نمائندگی کررہے ہیں مگر اس اہم ترین ایونٹ کا معیار وہ نہیں ہے جو دیگر ممالک میں کھیلے جانے والے ون ڈے ٹورنامنٹس میں ہوتا ہے اور اس ٹورنامنٹ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان کی ون ڈے ٹیم آئی سی سی رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر کیوں ہے ۔تادم تحریر اس ایونٹ میں 20میچز کھیلے گئے ہیں اور ان میں صرف دو مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کسی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے تین سو پلس کا مجموعہ حاصل کیا ہو اور دونوں مرتبہ یہ ’’اعزاز‘‘ سوئی سدرن گیس کے حصے میں آیا۔پہلی اننگز میں 12مرتبہ ایسا ہوا ہے جب ٹیموں کو پورے اوورز کھیلنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہو جبکہ دوسری باری میں آٹھ مرتبہ دوسو تک رسائی بھی ٹیموں کو نصیب نہیں ہوسکی جبکہ نو مرتبہ ڈھائی سو پلس ہدف کے تعاقب میں صرف دو مرتبہ بعد میں بیٹنگ کرنے والی ٹیمیں فتحیاب ہوئی ہیں ۔

ایک طرف ون ڈے انٹرنیشنلز میں تین سو پلس اسکور ایک عام سی بات بن گئی ہے بلکہ اکثر و بیشتر پچاس اوورز میں چار سو کا ہندسہ بھی اسکور بورڈ کی زینت بن جاتا ہے ۔ایسی صورتحال میں پاکستان کی ڈومیسٹک ون ڈے کرکٹ میں ٹیمیں تین سو رنز بنانے کیلئے بھی ترس رہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں ون ڈے فارمیٹ کے مطابق وکٹیں تیار نہیں کی جاتیں لیکن بیٹسمینوں میں بھی اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اچھے اسٹرائیک ریٹ کیساتھ بڑی اننگز کھیل سکیں ۔ ابھی تک پانچ میچز میں جن بیٹسمینوں نے دوسو سے زائد رنز بنائے ہیں ان میں صرف اویس ضیاء(105.65)کا اسٹرائیک ریٹ سو سے زائد ہے۔ 40اننگز میں صرف سات سنچریاں اسکور ہوئی ہیں اور سب سے بڑا انفرادی اسکور 134رہا۔

یہ چند ایک ایسے اعدادوشمار ہیں جو پاکستان کی ون ڈے فارمیٹ میں تنزلی کو واضح کرنے کیلئے کافی ہیں کہ جب ڈومیسٹک کرکٹ میں وکٹوں کا معیار ون ڈے فارمیٹ کے مطابق نہیں ہوگا، بیٹسمینوں کو لمبی اننگز کھیلنے میں مشکل ہوگی ،اوپنرز پاور پلے کے اوورز کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہیں گے ، نمبر چھ سات پر ایسے بیٹسمینوں کا فقدان ہوگا جو میچ کا پانسہ پلٹ سکیں تو پھر انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی پاکستان کی ون ڈے ٹیم کو نمبر 8پر گزارنا کرنا ہوگا۔

ون ڈے انٹرنیشنلز میں کچھ لوگوں کو اظہر علی کے انداز قیادت پر اعتراض ہے ،کچھ سمجھتے ہیں سینئر کھلاڑیوں کی ریٹائرمنٹ خراب کارکردگی کا سبب ہے یا پھر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کپتان کی تبدیلی تمام مسائل کو حل کردے گی مگر یہ تبدیلیاں صرف عارضی اور دل کو تسلی دینے کا سبب ہونگی کیونکہ کپتان یا کمبی نیشن تبدیل کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں ون ڈے ٹورنامنٹس کو اُن بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا جن پر انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی جارہی ہے یا دوسرے ممالک میں ڈومیسٹک ون ڈے ایونٹس ہوتے ہیں کیونکہ ون ڈے انٹرنیشنلز میں نمبر 8کی پوزیشن سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ’’نمبر2‘‘ ڈومیسٹک ون ڈے کرکٹ سے جان چھڑائی جائے جو ناکامی کی اصل جڑ ہے!!