اسٹار بیٹسمین کے ’’ڈھونگ‘‘ آخر کب تک؟

0 1,133

اگر ماضی اور حال کا تقابل کیا جائے تو جہاں میدان میں کرکٹ کے کھیل میں ان گنت تبدیلیاں آئی ہیں وہاں کھلاڑیوں کے لائف اسٹائل بھی اب مختلف ہوگئے ہیں۔80ء کی دہائی میں ان کھلاڑیوں کی تصاویر میگزینوں کے ذریعے مداحوں کے گھروں تک پہنچتی تھیں اور اب حال یہ ہے کہ سپر اسٹار کرکٹر اپنی نجی زندگی کی ہر ’’ایکٹیویٹی‘‘ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے فینز تک پہنچاتے ہیں۔ اگر یہ بات صرف معلومات تک محدود رہے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن کچھ اسٹار کرکٹرز سوشل میڈیا پر اپنی ’’نیک نامی‘‘ کی باقاعدہ مہم بھی چلواتے ہیں اور اگر ٹیم سے باہر ہوں تو پھر اُن کا سوشل میڈیا نیٹ ورک اُن کی واپسی کی بھی بھرپور کوششیں کرتا ہے جبکہ سادہ لوح مداح اُن کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ ماضی میں ’’اوور ریٹڈ‘‘ کھلاڑیوں کو ٹیم میں واپس آنے کیلئے کپتان کے ذاتی کام کرنا پڑتے تھے یا پھر سلیکٹرز کی خوشامدیں ...مگر اب اس ’’کام‘‘ کے علاوہ ایسے کھلاڑی سوشل میڈیا کا بھی بھرپور استعمال کررہے ہیں مگر کم تعلیم یافتہ یا ’’ان پڑھ‘‘ کھلاڑی اس میڈیم کا استعمال بھی درست طریقے سے کرنے سے قاصر ہیں!

ایک دن پہلے ’’خود ساختہ‘‘ سپر اسٹار احمد شہزاد نے اپنی ٹویٹ میں لاہور کی دونوں ٹیموں کو سیمی فائنل تک رسائی میں ناکامی کو ’’دل توڑنے‘‘ والی خبر لکھا مگر ’’اسٹار‘‘ بیٹسمین کا دل اُس وقت نہیں ٹوٹا تھا جب انہوں نے کپتانی کے لالچ میں قومی ون ڈے کپ میں لاہور کی بجائے اسلام آباد کی ٹیم کو ترجیح دی۔ احمد شہزاد کو لاہور کے ہارنے پر شاید اتنی مایوسی نہیں ہوئی جتنا انہیں اسلام آباد کی کپتانی نہ ملنے پر ہوئی تھی ۔اگر اسٹار کھلاڑی کیساتھ کیا گیا وعدہ پورا نہیں ہوا تو اس کا دُکھ انہیں لاہور کی ہار پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ افسوس انہیں اپنے آپ پر ہونا چاہیے کہ انہوں نے کپتانی کے لالچ میں لاہور کی ٹیم کو خیرباد کہہ دیا جس نے احمد شہزاد کو ہر موقع پر یاد رکھا۔ 2005ء میں لاہور اسکولز کی نمائندگی سے لے کر گزشتہ قومی ٹی20کپ تک احمد شہزاد کو لاہور نے متعدد مرتبہ مواقع دیے لیکن کپتانی کے لالچ میں احمد شہزاد دوسرے ریجن کے ہوگئے ۔ٹیم کی تبدیلی بھی اتنی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ اسلام آباد کی ٹیم ماضی میں بھی مہمان کھلاڑیوں پر بھروسہ کرتی رہی ہے لیکن لاہور کی کارکردگی پرتشویش کی بجائے احمد شہزاد کو منہ بند رکھ کر صرف اپنی کارکردگی پر توجہ دینی چاہیے ۔

رواں ڈومیسٹک سیزن میں احمد شہزاد نے ون ڈے فارمیٹ میں کافی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ ویسٹ انڈیز کے ٹور پرشاید احمد شہزاد کی واپسی ہوجائے لیکن ماضی میں بھی اپنے خراب رویے کے باعث ٹیم سے باہر ہونے والے کھلاڑی کو چاہیے کہ وہ دوسروں پرغیر ضروری تنقید کرنے اور ’’سہارے‘‘ ڈھونڈنے کی بجائے صرف اور صرف اپنی کارکردگی پر توجہ دے کیونکہ قومی ٹیم میں واپسی کیلئے ٹویٹس اور ’’تعلقات‘‘ کام نہیں آئیں گے بلکہ اچھی کارکردگی کسی بھی کھلاڑی کو واپسی کا ٹکٹ دلواسکتی ہے۔ اگر احمد شہزاد کو اس بات کا یقین نہیں ہے تو جنید خان کی مثال سامنے رکھ لے کہ جارح مزاج فاسٹ بالر نے خاموشی اور تسلسل کیساتھ ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کیا جس کا صلہ جنید کو قومی ٹیم میں واپسی کی صورت میں ملا۔

جونیئر کرکٹ سے لے کر سینئر ٹیم تک احمد شہزاد کی بدزبانی کے قصے میڈیا کی زینت بنتے رہے ہیں اور اسی خراب رویے کے باعث سابق کوچ نے وقار یونس نے احمد شہزاد کو قومی ٹیم سے باہر رکھنے کی سفارش کی تھی۔ کیا یہ بات قابل افسوس نہیں ہے کہ ایک اچھا بھلا باصلاحیت کھلاڑی انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کیلئے اپنی صلاحیت پر بھروسہ نہیں کررہا بلکہ اس کیلئے مختلف سہارے ڈھونڈھ رہا ہے۔ کیرئیر کے آغاز پر وہ کپتان کا ’’دلارا‘‘ بن گیا تھا اور کپتان کو قومی ٹیم سے دور کیا گیا تو نوجوان بیٹسمین نے بھی اپنے ’’سابق رہنما‘‘ سے دوری اختیار کرلی۔

جارح مزاج بیٹسمین کی حیثیت سے شہرت رکھنے والے احمد شہزاد نے ون ڈے انٹرنیشنلز میں صرف 72کے اسٹرائیک ریٹ سے رنز کیے ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ اوپننگ بیٹسمین پاور پلے کے اوورز میں بیٹنگ کرنے کے باوجود پاکستانی ہیرو تیزی سے رنز کرنے میں ناکام رہا ہے اگر ایک سیزن میں احمد شہزاد نے کچھ رنز کردیے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سنٹرل کانٹریکٹس کی ڈی کیٹیگری میں موجود کھلاڑی کسی ریجن پر تنقید کرنا شروع ہوجائے۔

احمد شہزاد ٹویٹر پر اپنے مداحوں کی تعداد بڑھانے کیلئے سوشل میڈیا ٹیم ضرور رکھیں، جن لوگوں سے اُن کا کام نکلتا ہے ان کیلئے خوشامدی ٹویٹس بھی کریں ،اپنا اچھا رویہ ثابت کرنے کیلئے بھی ٹویٹر کا استعمال کریں، اگر مکی آرتھر فٹ کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرنے کی بات کریں تو احمد شہزاد نیشنل اکیڈمی میں اپنی ٹریننگ کی ویڈیوز ضرور اَپ لوڈ کریں اور پی ٹی وی پر تجزیہ کرنے والے ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر سے اپنے حق میں تعریفی بیانات بھی کروائیں جو اپنی اکیڈمی میں لائٹس لگوانے میں مدد حاصل کرنے کے بعد احمد شہزاد کا کیرئیر روشن کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ’’سیلفی کنگ‘‘یہ بات ضرور یاد رکھے کہ قومی ٹیم میں واپسی ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی اور ڈریسنگ روم میں ساتھیوں کے ساتھ اچھے رویے کے باعث ہی ممکن ہوگی کیونکہ ٹویٹر پر احمد شہزاد کے یہ ’’ڈھونگ‘‘ نہ انہیں ٹیم میں واپس لاسکتے ہیں اور نہ ہی اُن کی ’’نیک نامی‘‘ کو ثابت کرسکتے ہیں!!

Ahmed-Shehzad3