786

0 1,068

آئی سی سی کی تازہ ترین رینکنگ کے مطابق پاکستانی ٹیم ٹی20فارمیٹ میں ساتویں، ون ڈے انٹرنیشنلز میں آٹھویں اور ٹیسٹ کرکٹ میں چھٹے نمبر پر موجود ہے ۔ان اعدادکو کسی منچلے نے سوشل میڈیا پر 786کا نام دے کر ’’متبرک‘‘ بنا دیا ہے اور مجھے پوری اُمید ہے کہ اگر یہ ’’منطق‘‘ پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ عہدیداروں کے ہاتھ لگ جائے تو یقینا وہ رینکنگ پوزیشن میں ان اعداد کو ’’باعث برکت‘‘ سمجھتے ہوئے پوری کوشش کریں گے کہ پاکستانی ٹیم کی پوزیشن تبدیل نہ ہو!

اعدادوشمار کے اس گورکھ دھندے کو بھی ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور کچھ دیر کیلئے یہ بھول جاتے ہیں کہ چند ہفتے قبل ٹیسٹ کرکٹ میں سرفہرست پوزیشن کو چھونے والی پاکستانی ٹیم اس وقت پانچ ٹیموں سے پیچھے ہے جبکہ ون ڈے انٹرنیشنلز میں چھ ٹاپ ٹیموں کے علاوہ بنگلہ دیش بھی پاکستان سے آگے ہے اور کسی دور میں ٹی20فارمیٹ کا سب سے عمدہ اسکواڈ قرار دی جانے والی ٹیم آج ساتویں نمبر پر ہے لیکن اس کے باوجود میدان میں پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس سے قطعی یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ کوئی بڑی ٹیم کھیل رہی ہے جو وقتی طور پر خراب کارکردگی کا شکار ہے۔ ’’786‘‘کی رینکنگ پاکستانی ٹیم پر بالکل واجب آتی ہے کیونکہ تینوں فارمیٹس میں گرین شرٹس کی کارکردگی دن بدن مایوس کن ہوتی جارہی ہے جس میں اگر کوئی ’’خوشگوار‘‘ لمحہ آجائے توپچھلی ناکامیوں کے اوپر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے حال ہی میں مکی آرتھر کو قومی ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کیا ہے جو ماضی میں بڑی ٹیموں کی کوچنگ کرچکے ہیں لیکن مکی آرتھر سے جو امیدیں وابستہ کی گئی تھیں وہ اُن سے کوسوں دور ہیں کیونکہ آرتھر کے آنے کے بعد پاکستانی ٹیم کی کارکردگی زوال پذیر ہے حالانکہ ماضی میں مکی آرتھر کی کوچنگ میں جنوبی افریقی ٹیم ون ڈے رینکنگ میں دو مرتبہ سرفہرست پوزیشن حاصل کرنے کیساتھ ساتھ دو برس تک نو ٹیسٹ سیریز میں ناقابل شکست رہ چکی ہے لیکن گزشتہ برس مئی میں پاکستانی ٹیم کی کوچنگ سنبھالنے والے مکی آرتھر کی کوچنگ میں گرین شرٹس تینوں فارمیٹس میں مجموعی طور پر 29میں سے14میچز جیتے ہیں اور 15میں شکست ہوئی ہے ۔اس عرصے میں انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کیخلاف چاروں ٹی20جیتنے والی ٹیم آئرلینڈ اور ویسٹ انڈیز کیخلاف ون ڈے سیریز جیتنے کیساتھ انگلینڈ اور آسٹریلیا میں شکست سے دوچار ہوچکی ہے جبکہ ٹیسٹ کرکٹ میں نمبر ون پوزیشن کو ہاتھ لگانے والی ٹیم کو بارہ میں سے آٹھ میچز میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں آخری چھ ٹیسٹ میچز میں مسلسل شکست بھی شامل ہے۔

اگر مکی آرتھر کی کوچنگ کی صلاحیتیں تسلیم شدہ ہیں اور پاکستانی کھلاڑی بھی باصلاحیت ہیں تو پھر مطلوبہ نتائج کیوں نہیں مل رہے اور کیا وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم تینوں فارمیٹس میں آئی سی سی رینکنگ میں تنزلی کا شکار ہورہی ہے۔وہ ایسی کونسی تبدیلیاں ہیں یا وہ ایسا کون سا نسخہ ہے جو پاکستانی ٹیم کو تنزلی کی اس ذلت سے نکالے گا۔ کیا ماضی کی طرح اب بھی ’’ہول سیل‘‘تبدیلیاں کرنے سے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے گی یا پھر موجودہ ٹیموں میں بہتری لانے کیلئے کچھ سوچا جائے گا ۔اگر ٹیسٹ ٹیم کی بات کی جائے تو مسلسل چھ شکستوں کے باوجود مصباح الحق کو قیادت سے ہٹانے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے کیونکہ گزشتہ چھ برسوں میں کسی ایک بھی ایسے کھلاڑی کو تیار نہیں کیا گیا جو آگے بڑھ کر ٹیسٹ ٹیم کی باگ دوڑ سنبھال سکے۔اگلے مہینوں میں دورہ ویسٹ انڈیز اور پھر یو اے ای میں ہوم سیریزوں سے ٹیسٹ رینکنگ میں بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن اصل مسئلہ ون ڈے ٹیم کا ہے جس کیلئے ورلڈ کپ میں براہ راست شرکت بھی مشکل ہوتی جارہی ہے۔

آسٹریلیا کیخلاف حالیہ ون ڈے سیریز کا اختتام کئی کھلاڑیوں سے سبز وردی چھین لے گا جس میں کپتان اظہر علی کا نام سرفہرست ہے اور تبدیلیوں کے عمل میں ایسے کچھ کھلاڑیوں کی قسمت کھلنے کا امکان ہے جو ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارمنس دینے کے بعد واپسی کی کوششیں کررہے ہیں لیکن صرف چہرے تبدیل کرنے سے ون ڈے یا پھر ٹی20ٹیم کی قسمت نہیں بدل جائے گی بلکہ اس کیلئے اپروچ تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مختصر فارمیٹس میں پاکستانی ٹیم جس دور کی کرکٹ کھیل رہی ہے وہ دور گزر چکا ہے اور دیگر ٹیمیں بہت آگے نکل چکی ہیں۔

اگر پاکستانی ٹیم ون ڈے رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر موجود ہے تو یہ اس کی مستحق بھی ہے کیونکہ جب صرف اپنی کرسیاں بچانے کیلئے ’’مٹی کے مادھوؤں‘‘ کو اہم ذمہ داریاں سونپ دی جائیں تو پھر نتائج بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ مکی آرتھر کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی جارہی ہے جو ون ڈے ٹیم میں تبدیلیاں لائے گی ۔اگر مکی آرتھر واقعی اپنے کوچنگ کیرئیر کو ایک اور بدنما داغ سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں حقیقی معنوں میں تبدیلی لانے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے ورنہ یقین کریں 786سے ’’مبارک‘‘ ہندسہ کوئی اور نہیں ہے!!