[آج کا دن] ایسا پاک-بھارت مقابلہ جو ہمیشہ یاد رہے گا

0 2,904

پاک-بھارت ٹیسٹ تو اب بھولی بسری یادیں بن چکے ہیں ۔ اس صدی کے آغاز میں جب روایتی حریفوں کے تعلقات بحال ہوئے تو ہمیں کئی یادگار مقابلے دیکھنے کو ملے۔ خاص طور پر جب بھارت نے آخری مرتبہ 2006ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا تو لاہور اور فیصل آباد کے بعد کراچی کو آخری ٹیسٹ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا تھا جو بلاشبہ دونوں ممالک کی باہمی تاریخ کے یادگار ترین مقابلوں میں سے ایک تھا۔آج اس مقابلے کو 11 سال بیت گئے۔

اس میچ کا آغاز ہی یادگار تھا۔ بھارت کے عرفان پٹھان نے پہلے ہی اوور میں ہیٹ ٹرک کا انوکھا ریکارڈ بنایا تھا ۔ سلمان بٹ، یونس خان اور محمد یوسف جیسے بلے باز پہلے اوورز میں ہی لوٹ گئے تو پاکستان کی بیٹنگ لائن ہل کر رہ گئی۔ گیارہویں اوور میں جب عمران فرحت کی وکٹ گری تو اسکور بورڈ پر 39 رنز 6 کھلاڑی آؤٹ کا ہندسہ جگمگا رہا تھا۔ پھر جو ہوا اس کی توقع کسی کو نہیں تھی۔ عبد الرزاق اور کامران اکمل نے ایک مرتبہ پھر پرانی یادیں تازہ کیں اور ساتویں وکٹ پر 115 رنز کی شراکت داری قائم کرتے ہوئے پاکستان کو میچ بچانے کی راہ دکھائی۔ عبد الرزاق نے 45 رنز بنائے تو آنے والے شعیب اختر نے بھی اتنے ہی رنز کے ذریعے کامران اکمل کا ساتھ دیا جنہوں نے 113 رنز کی ایک یادگار اننگز کھیلی۔ آٹھویں وکٹ پر کامران اور شعیب نے مزید 82 رنز کا اضافہ کیا اور یوں پاکستان 245 رنز کا ایسا مجموعہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا جو کم از کم پہلے سیشن کے اسکور کو دیکھتے ہوئے غیر متوقع تھا۔

Kamran-Akmal

پاکستان کی مقابلے میں اس طرح واپسی بھارت کے لیے اتنی غیر متوقع تھی کہ وہ پھر مقابلے میں واپس نہیں آ سکا، خاص طور پر محمد آصف کی باؤلنگ کا 'مہان' بلے بازوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ پاکستان نے آصف کی چار اور عبد الرزاق کی تین وکٹوں کی بدولت بھارت کو پہلی اننگز میں 238 رنز تک ہی محدود کردیا۔ یعنی بھارت 39 رنز پر پاکستان کے 6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کے بعد بھی پہلی اننگز میں برتری حاصل نہ کر سکا۔

یہ 7 رنز کی معمولی برتری بھی پاکستان کے لیے اتنی حوصلہ افزا ثابت ہوئی کہ دوسری اننگز میں بھارتی گیند بازوں کے لیے کھیلنا مشکل کردیا۔ سلمان بٹ اور عمران فرحت نے پہلی وکٹ پر ہی سنچری شراکت داری قائم کی اور اس کے بعد رنز کی بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے۔ پاکستان کے ابتدائی ساتوں بلے بازوں نے کم از کم نصف سنچری ضرور بنائی جو ایک نیا عالمی ریکارڈ تھا۔ بدقسمتی سے محمد یوسف اور عبد الرزاق سنچریاں نہ مکمل کر سکے اور چند رنز کی کمی کی وجہ سے محروم رہ گئے لیکن سلمان بٹ، عمران فرحت، یونس خان اور شاہد آفریدی کی نصف سنچریوں کے ساتھ فیصل اقبال نے اپنے کیریئر کی یادگار ترین سنچری بنائی۔ انہوں نے 220 گیندوں پر 139 رنز اسکور کیے اور ان کے بعد عبد الرزاق کے آؤٹ ہوتے ہی پاکستان نے دوسری اننگز 599 رنز پر ڈکلیئر کردی۔

اب بھارت کے سامنے 607 رنز کا ہدف تھا، یعنی پاکستان نے بھارت کو مقابلے کی دوڑ سے مکمل طور پر باہر کردیا تھا۔ پھر جب آخری اننگز شروع ہوئی تو محمد آصف اور شعیب اختر نے تباہی مچا دی۔ آغاز شعیب اختر نے راہل ڈریوڈ کی وکٹ کے ساتھ کیا جس کے بعد محمد آصف نے اپنی زندگی کی تین یادگار ترین گیندوں پر وریندر سہواگ، وی وی ایس لکشمن اور سچن تنڈولکر کو کلین بولڈ کیا۔ بھارت کی بیٹنگ لائن کی کمر ٹوٹ چکی تھی ۔ پھر بھی سارو گانگلی اور یووراج سنگھ نے 103 رنز کی شراکت داری کے ساتھ کچھ مزاحمت کی جس نے شکست کے مارجن کو کم کرنے کا کام ضرور کیا۔ آل راؤنڈر عبد الرزاق نے اس شراکت داری کا بھی خاتمہ کیا اور تین مزید وکٹیں لے کر بھارت کو 265 رنز پر آل آؤٹ کردیا۔ یووراج سنگھ 122 رنز کے ساتھ سب سے نمایاں بلے باز رہے البتہ یہ سنچری بھارت کے کسی کام کی نہیں تھی۔

پاکستان نے 341 رنز کے بہت بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی جو 8 سال تک رنز کے اعتبار سے پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی تھی یہاں تک کہ 2014ء میں آسٹریلیا کو ابوظہبی میں 356 رنز سے ہرایا۔ اس کامیابی کے ساتھ ہی پاکستان نے ٹیسٹ سیریز بھی ایک-صفر سے جیت لی ۔ لیکن شاید اس کے بعد "نظر" لگ گئی۔ یہ پاک سرزمین پر دونوں روایتی حریفوں کا آخری ٹیسٹ ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد 2008ء میں ممبئی حملے کے بعد دونوں ممالک کے سیاسی و کرکٹ تعلقات ختم ہوگئے۔ محدود اوورز کی کرکٹ بحال کرنے کی ایک کوشش تو درمیان میں ضرور ہوئی لیکن دونوں ممالک پچھلے دس سالوں سے ٹیسٹ کرکٹ میں ایک دوسرے کے مقابل نہیں آئے۔

Abdul-Razzaq