ہیروز کو عزت کب دیں گے؟

0 1,132

مجھے اس بات سے دلچسپی نہیں ہے کہ مصباح الحق مزید کتنا عرصہ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں کیونکہ دوسرے کھلاڑیوں کی طرح مصباح الحق نے بھی ایک نہ ایک دن اس کھیل کو الوداع کہنا ہے اور جب بھی مصباح ریٹائرمنٹ کا اعلان کریں گے تو یہ کوئی انوکھی بات نہ ہوگی مگر اس فیصلے کا اختیار خود مصباح الحق کو ہونا چاہیے کہ وہ کب تک ٹیسٹ کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں کیونکہ مصباح خود غرض کھلاڑی نہیں ہے جو ذاتی مقاصدکیلئے قومی ٹیم سے چمٹا رہے۔ اگر پی سی بی کے سربراہ کے کہنے پر مصباح اُس وقت ٹی20انٹرنیشنلز سے دور ہوسکتا ہے جب وہ اس فارمیٹ میں شاندار پرفارمنس دکھا رہا تھا یا پھر ون ڈے انٹرنیشنلز سے ریٹائر ہونے کے بعد مصباح زمبابوے کیخلاف لاہور میں الوداعی میچ کھیلنے سے انکار کرسکتا ہے تو پھر مصباح کو ٹیسٹ کرکٹ سے چمٹے رہنے کی کیا ضرورت ہے؟

اگر میں مصباح الحق کے پورے کیرئیر پر نظر ڈالوں تو یہ کسی طور پر ’’نارمل‘‘ کیرئیر نہیں لگتاکیونکہ مصباح نے ہر موقع پر روایات کو بدلا ہے۔ مصباح الحق کی کہانی کیا ہے ...ایک لڑکا جس نے جونیئر کرکٹ میں دلچسپی دکھانے کی بجائے اپنی پوری توجہ پڑھائی کو دی اور جب اس نے کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا انڈر19کی عمر نکل چکی تھی جبکہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مصباح نے سنجیدگی سے کرکٹ شروع کی تو وہ عمر ایسی تھی جب پاکستانی کھلاڑی اسٹار کا درجہ پاچکے ہوتے ہیں اور مصباح الحق اُس وقت کلب کرکٹ کھیل رہا تھا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ تک رسائی ملی تو سرکٹ میں کئی بڑے نام موجود تھے جن کے ہوتے ہوئے قومی ٹیم میں جگہ حاصل کرنا ناممکنات میں تھا۔ ہر سیزن میں رنز کے انبار لگانے کے بعد جب سر پر گرین کیپ سجائی تو ’’باصلاحیت کھلاڑی‘‘ کا ٹیگ اب ’’بوڑھے کھلاڑی‘‘ میں تبدیل ہوچکا تھا۔ان تمام حالات سے لڑتے ہوئے مصباح آسٹریلیا کے ٹور کے بعد ٹیم سے باہر ہوا تو یوں لگا کہ اب مصباح کی واپسی نہیں ہوگی لیکن پھر قسمت نے کروٹ بدلی اور اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد کپتانی کا قرعہ فال مصباح الحق کے نام نکلاجس نے یہاں بھی روایت بدلی اور چھ برس تک قومی ٹیم کا کپتان رہا اور پاکستان کو پہلی مرتبہ آئی سی سی رینکنگ میں ٹاپ ٹیم بنوادیا، پاکستان کے سب سے کامیاب کپتان کا اعزاز بھی اپنے نام لکھوایا ، جس ملک میں تیس سال سے زائد کے کھلاڑیوں کو اپنا بوریا بستر لپیٹنے کا مشورہ دیا جاتا ہے اس ملک میں مصباح 42سال کی عمر میں مکمل فٹنس اور فارم کیساتھ انٹرنیشنل کرکٹ کھیل رہا تھا لیکن اب اسی مصباح الحق کو ٹیسٹ کرکٹ چھوڑنے کے مشورے دیے جارہے ہیں حالانکہ کچھ عرصہ پہلے تک مصباح کو روکنے کی باتیں کی جارہی تھیں جب وہ خود جانا چاہ رہا تھا۔

یہ مصباح الحق کی کہانی ہے جو اُس کی دلیری اور ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے سے عبارت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج جب اُس کے مخالفین آسٹریلیا میں وائٹ واش کے بعد اُچھل اُچھل کرریٹائرمنٹ کا راگ الاپ رہے ہیں تو مصباح نے واضح کردیا ہے کہ وہ پی ایس ایل میں اپنی فارم اور فٹنس دیکھنے کے بعد اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ چاہے مصباح الحق ہوں یا یونس خان ...انہیں یہ موقع ضرور ملنا چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے خود فیصلہ کریں کیونکہ جن کھلاڑیوں نے صحیح معنوں میں پاکستان کرکٹ کی خدمت کی ہے وہ کیرئیر کے آخری حصے میں محض ذاتی خواہش کیلئے پاکستان کرکٹ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔اس لیے ایسے کھلاڑیوں کا احترام کرنا اور بھی لازم ہوجاتا ہے۔

مصباح کو ناکام کھلاڑی اور کپتان ثابت کرتے ہوئے گھر بھیجنے کی کوشش کرنے والوں کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اُن کی مرضی کاکپتان سامنے لایا جائے کیونکہ نئے کپتان کو کامیاب کروانے کا یہ ’’نادر‘‘ موقع ہے۔اگر مصباح کی خامیاں اتنی نمایاں تھیں تو وہ چھ ماہ پہلے نظر کیوں نہیں آئیں جب انگلینڈ اور آسٹریلیا کے مشکل دورے سامنے نظر آرہے تھے ۔ اُس وقت ناقدین نوجوان کپتان کو سامنے لانے کیلئے اتنے اُتاولے کیوں نہیں ہوئے جتنا کہ اب ہورہے ہیں؟وجہ بلکہ منصوبہ بندی بالکل واضح ہے کہ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے مشکل دوروں پر مصباح کی ناکامی کا انتظار کرتے ہوئے نئے کپتان کیلئے راہ ہموار کی جائے جو اگلے بارہ مہینوں میں آسان ٹیموں کیخلاف کپتانی کرتے ہوئے اپنی جگہ مستحکم کرلے کیونکہ دورہ انگلینڈ سے قبل نئے کپتان کے حق میں ’’مہم‘‘ چلائی جاتی تو نئے کپتان سے دو ٹورز بھی ’’برداشت‘‘ نہیں ہونے تھے۔

43سالہ مصباح الحق نے جلد یا بدیر جانا ہی ہے اس لیے ناقدین کچھ دیر اور انتظار کرلیں جس کے بعد وہ اپنے من پسند کپتان کیساتھ پاکستان کرکٹ کو بلندیوں کی طرف لے جاسکتے ہیں لیکن خدارا اپنے ہیروز کی عزت کرنا سیکھیں کیونکہ جو لوگ پاکستان کی عزت کیلئے میدان میں اُترے انہیں اتنا حق ضرور حاصل ہے کہ پاکستان کے لوگ انہیں احترام دیتے ہوئے باعزت طور پر اُن کی خواہش کے مطابق انہیں رخصت کریں تاکہ آنے والوں کیلئے ایک مثال قائم ہوسکے۔ ہم نے بہت سے عظیم کھلاڑیوں کو برے طریقے سے گھر بھیجا ہے مگر اب وقت ہے کہ اپنے اسٹارز کو پورے احترام کیساتھ الوداع کہا جائے اور اس روایت کو مصباح الحق سے شروع ہونا ہے کیونکہ مصباح ہیرو بھی ہے اور روایت شکن بھی!!

misbah ul haq