آئی سی سی کا سالانہ اجتماع، اہم ترین فیصلے

2 1,056

بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے سالانہ اجتماع 2011ء میں ہونے والے مختلف اجلاسوں کے بعد دنیا بھر میں کرکٹ کے فروغ اور انتظامات کے حوالے متعدد اہم فیصلے کیے ہیں جن میں ایک اہم ترین فیصلہ رکن بورڈز میں سیاسی مداخلت کو روکنا ہے۔ اس سلسلے میں آئی سی سی نے اتفاق رائے سے اپنے قوانین میں تبدیلی کی رائے دی ہے جس میں شفاف انتخاب اور بورڈ اراکین کا آزادانہ انتخاب شامل ہیں۔

بین الاقوامی کرکٹ کونسل کرکٹ کے فروغ کے لیے کوشاں

کرکٹ بورڈز میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ

کرک نامہ کے موصول ہونے والے بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ تمام بورڈ اراکین نے اس امر پر اتفاق کیا کہ ان سفارشات پر جون 2012ء تک عمل کیا جائے گا اور اگلے 12 ماہ یعنی جون 2013ء کے بعد عدم تعمیل کرنے والے بورڈز پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔

اجلاس میں کہا گیا کہ اس جدید عہد میں کرکٹ کی ملکی انتظامیہ کو خود مختار اور اپنے انتظامی معاملات میں حکومت کی مداخلت سے آزاد ہونا چاہیے۔

آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو ہارون لورگاٹ نے اس کو ایک اہم قدم قرار دیا ۔

یہی وجہ ہے کہ آئی سی سی کی صدارت کا مرحلہ چند ماہ کے لیے موخر کر دیا گیا ہے۔ کیونکہ موجودہ روٹیشن پالیسی کے تحت صدارت و نائب صدارت کے لیے اگلی باری بالترتیب پاکستان و بنگلہ دیش کی ہے، اس لیے دونوں بورڈز کو ڈائریکٹرز کی تعیناتی کے لیے ایک آزادانہ و شفاف عمل کو ممکن بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جس کے بعد اکتوبر میں آئی سی سی ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں اس معاملے پر دوبارہ غور کیا جائے گا۔

فی الوقت اس فیصلے سے پاکستان کے سر پر آئی سی سی کی صدارت سے محروم ہو جانے کی تلوار تو ہٹ چکی ہے تاہم اب پی سی بی کو اپنے انتظامی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیاں کرنی ہوں گی بصورت دیگر وہ نہ صرف صدارت سے محروم ہو سکتا ہے بلکہ عدم تکمیل کی صورت میں 2013ء میں پابندی کا نشانہ بن سکتا ہے۔ پاکستان میں عرصہ دراز سے بورڈ کے سربراہوں کا تقرر حکومت وقت کی سیاسی خواہشات کے مطابق کیا جاتا ہے اور اس میں صدر کی کرکٹ اہلیت کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے کرکٹ سے محبت کرنے والے حلقے آئی سی سی کے اس فیصلے سے بہت خوش دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں انتظامی طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ میں بہتری آنے کے امکانات ہیں جبکہ دوسری جانب موجودہ انتظامیہ میں کھلبلی مچ رہی ہے۔

بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے اس فیصلے سے برصغیر کے تین بورڈز بہت زیادہ متاثر ہوں گے یعنی پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا۔ جہاں پاکستان میں چیئرمین کرکٹ بورڈ کا تقرر براہ راست صدر کرتا ہے، جبکہ سری لنکا میں کرکٹ بورڈ وزارت کھیل کو جوابدہ ہوتا ہے اور بنگلہ دیش میں تمام بورڈ صدور حکومت کے مقرر کردہ ہوتے ہیں۔ ان تینوں بورڈز میں صرف پاکستان ہی واحد تھا جس نے باضابطہ طور پر اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور کم از کم چیئرمین کی تقرری کو اس کی شقوں سے نکالنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم آئی سی سی حکام کے ساتھ چند ملاقاتوں کے بعد معاملہ بخوبی طے پا گیا اور اتفاق رائے سے یہ سفارش منظور کر لی گئی۔ یوں اب پاکستان سمیت دیگر بورڈز کے پاس صرف دو سال کا موقع ہے کہ وہ اپنے ڈھانچے کو مکمل طور پر جمہوری اور آزادانہ بنائیں ، بصورت دیگر انہیں عالمی کرکٹ میں پابندی کا نشانہ بننا پڑے گا۔

عالمی کپ 2015ء اور شریک ٹیمیں

دیگر اہم زیر بحث معاملات میں عالمی کپ 2015ء میں ٹیموں کی شرکت کا قضیہ اہم تھا جس کے لیے آئی سی سی نے اگلے عالمی کپ میں 14 ٹیموں کی شمولیت کا فیصلہ کیا۔ ایسوسی ایٹ اراکین کے لیے یہ خوشخبری گزشتہ چند ماہ کی کوفت کے بعد ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوئی ہے جو اپریل میں اگلے عالمی کپ کو 10 ٹیموں تک محدود کرنے کی سفارش کے بعد سے خاصے پریشان تھے۔ تاہم آئی سی سی کرکٹ کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلا جانے والا اگلا عالمی کپ 14 ٹیموں پر مشتمل ہوگا جن میں 10 مستقل رکن ممالک اور 4 دیگر کوالیفائر ممالک شامل ہوں گے۔

تاہم ایسوسی ایٹ ممالک کے لیے 'سب اچھا' نہیں ہے کیونکہ اس فیصلے کے ساتھ آئندہ سال 2012ء میں سری لنکا میں ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے 16 ٹیموں کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے اسے دوبارہ 12 ٹیموں تک محدود کر دیا گیا ہے جبکہ 2014ء میں بنگلہ دیش میں ہونے والا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی بھی 12 ٹیموں ہی کے درمیان کھیلا جائے گا۔

پاکستان کے حوالے سے 63 سفارشات

پاکستان کے حوالے سے آئی سی سی کی پاکستان ٹاسک ٹیم نے اپنا کام مکمل کرتے ہوئے 63 سفارشات پر مشتمل ایک جامع دستاویز جمع کروائی ہے جس میں انتظامی معاملات سے لے کر کھیل کے ڈھانچے تک کے زمروں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ٹاسک ٹیم کے چیئرمین انگلستان کے جائلز کلارک ہیں جبکہ اس میں مائیک بیئرلے، پیٹر چنگوکا، ہارون لورگاٹ، رنجن مدوگالے، رمیز راجا اور ڈیو رچرڈسن شامل ہیں۔

جمع کردہ دستاویز اور اس میں موجود سفارشات پاکستان کرکٹ بورڈ کے اگلے بورڈ اجلاس میں زیر بحث آئیں گی۔

اجلاس میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے 2018ء میں پاکستان میں ایک آئی سی سی ایونٹ کے انعقاد کا مطالبہ بھی کیا تاہم اس کی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی گئی کہ آئی سی سی پاکستان میں کوئی ایونٹ منعقد کروائے گا۔ پاکستان مارچ 2009ء کے بعد سے کسی بھی قسم کی بین الاقوامی کرکٹ سے محروم ہے۔

ایک روزہ کرکٹ میں تبدیلیاں

قبل ازیں چیف ایگزیکٹوز کمیٹی کے اجلاس میں ایک روزہ کرکٹ کے فارمیٹ اور عالمی درجہ بندی میں اہم تبدیلیوں سمیت دیگر معاملات زیر بحث آئے۔ اس کے اہم فیصلوں میں دونوں اینڈز سے دو گیندوں کا استعمال اور 16 ویں سے 40 ویں اوور کے درمیان منتخب پاور پلے کی پابندی شامل ہیں۔ ان فیصلوں کا اطلاق یکم اکتوبر سے ہوگا۔ ان کے علاوہ ایک کے بجائے دو باؤنسرز پھینکنے کی اجازت اور پاور پلے کے علاوہ اوورز میں بھی 30 گز کے دائرے کے باہر محض 4 فیلڈرز رکھنے کے اہم فیصلے کیے گئے۔

ایک اور اہم فیصلہ اکتوبر 2011ء سے عالمی درجہ بندی میں ٹی ٹوئنٹی کی شمولیت کے حوالے سے بھی کیا گیا۔

علاوہ ازیں ایگزیکٹو کمیٹی نے رنر کے استعمال پر بھی پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے اور اس کا سبب اس اجازت کا ناجائز استعمال بتایا ہے۔

فیصلوں پر نظر ثانی کے نظام کا اطلاق

چیف ایگزیکٹو کمیٹی کا ایک اہم فیصلہ اتفاق رائے کے ساتھ تمام ٹیسٹ اور ایک روزہ مقابلوں میں امپائرز کے فیصلوں پر نظرثانی کے نظام کا اطلاق تھا تاہم 'رنگ میں بھنگ' ضرور ڈالی گئی اور ہاٹ اسپاٹ کو لازمی قرار دیتے ہوئے بال ٹریکنگ کی ٹیکنالوجی جسے 'ہاک آئی' کہا جاتا ہے اور جو ایل بی ڈبلیو کے فیصلوں میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، کولازمی ٹیکنالوجی کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ یوں اس فیصلے پر بھارت کے واضح اثرات نظر آ رہے ہیں جو دنیائے کرکٹ کا واحد بورڈ ہے جو اس نظام کے خلاف ہے۔ بال ٹریکنگ ٹیکنالوجی کی عدم موجودگی کے باعث فیلڈ اور تھرڈ امپائرز کو ایل بی ڈبلیو کے فیصلوں میں مشکلات کا سامنا ہوگا اور بلاشبہ فیلڈ امپائر کے فیصلے کو ہی مقدم سمجھا جائے گا۔

دوسری جانب بلے کا باریک کنارہ لینے والی گیندوں کا جائزہ لینے کے لیے ہاٹ اسپاٹ کے ساتھ ساتھ اعلی معیار کی آڈیو ٹیکنالوجی کے استعمال کو بھی لازمی قرار دیا ہے لیکن اس میں 'اسنکو' (snicko) کا نام شامل نہیں۔

دنیا کے امیر ترین کرکٹ بورڈ کے اعتراضات میں سے ایک اعتراض اس نظام پر آنے والی لاگت بھی تھی، اور یہ بات ہی مضحکہ خیز لگتی ہے۔

بہرحال، آئی سی سی کا یہ ادھورا فیصلہ ہی ہے جس کی وجہ سے بھارت کی جانب سے ڈی آر ایس کے معاملے پر اپنی فتح کا اعلان کیا گیا تاہم آئی سی سی مصر ہے کہ اس نے اس نظام پر بھارت کو رضامند کیا ہے اور یہ اس کی فتح ہے۔