عملیت پسندی کا فقدان

0 1,044

سنہ2010 میں جب اسپاٹ فکسنگ سکینڈل نے پاکستان کرکٹ کو اپنی لپیٹ میں لیا تو لاکھوں نہیں کروڑوں کرکٹ شائقین کی طرح مجھے بھی شدید صدمہ ہوا۔ اول اول تو اس خبر پر یقین کرنے کو جی نہ چاہتا تھا، پھر جب حقائق سامنے آتے گئے تو میری خواہش کے بر عکس بھارتی سازش، انگریزوں کی نفرت اور اس قبیل کے دوسرے عوامل کی بجائے کھلاڑیوں کا لالچ ایک اہم عمل انگیز کے طور پر سامنے آیا۔

محمد آصف اور سلمان بٹ کی نسبت محمد عامر کے ساتھ میری ہمدردیاں شائد اس کی کم عمری کے باعث تھیں۔ محمد عامر کی سزا کی مدت پوری ہونے کے بعد میں بھی اس گروہ میں شامل تھا جو محمد عامر کی ٹیم میں دوبارہ شمولیت کے حق میں دلائل دے رہا تھا۔ محمد عامر کی کم عمری، نسبتا معصومیت اور اس کا ٹیلنٹ شائد میری سوچ کو متاثر کر رہے تھے۔ جب محمد عامر کو ٹیم میں واپس شامل کر لیا گیا تو مجھے فطری خوشی ہوئی۔ لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ محمد عامر کی کارکردگی ۲۰۱۰ اور اس سے پہلے کی کارکردگی کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ جیل میں گزرا وقت انسان کو بد ل دیتا ہے اور محمد عامر نے تو شائد اٹھارہ ماہ جیل میں گزارے تھے۔

جب تک محمد عامر ٹیم سے باہر تھا، پاکستان کی تیز رفتار بالنگ کا شعبہ راحت علی، جنید خان اور سہیل خان جیسے گیند بازوں نے سنبھالے رکھا ۔ متحدہ عرب امارات کے میدانوں کی ریتیلی سطحوں پر دوڑ کر اس رفتار سے گیند پھینکنا کہ مخالف بیٹسمین مرعوب ہو کر یا تو غلط طریقے سے کھیلے اور آوٹ ہو جائے یا پھر سر نہیوڑا کر اچھے وقت کا انتظار کرے ، بہت مشکل کام ہے۔ سہیل خان راحت علی، اورجنید خان کے علاوہ بھی گیند باز آئے اور ٹیم سے ایسے نکلے کہ اب ان کا نام یاد نہیں۔ محمد عامر کی واپسی کے بعد پاکستان کرکٹ کے ان ہیروز کو ہم بھول چکے ہیں۔ پاکستان کرکٹ کے لئے ان کی قربانی شائد متحدہ عرب امارات کی ریتیلی سطحوں پر اپنا کوئی دیرپا اثر نہ چھوڑ سکی۔محمد عامر کی واپسی کے بعد ان تیز گیند بازوں کو شائد ایک دو مواقع ہی ملے ہیں۔ محمد عامر کی واپسی کے بعد سلمان بٹ اور محمد آصف کی واپسی کی باتیں ہونے لگیں، دونوں اپنے شعبے میں ماہر کھلاڑی ہیں اور کوئی دن میں شائد کسی کو ان پر رحم آجائے اور یہ کھلاڑی دوبارہ ٹیم میں کھیلنے بھی لگیں۔ لیکن ان کی جگہ بنانے کے لئے کسی نہ کسی کو تو نکلنا ہوگا۔

آپ سوال کریں گے کہ مجھے ان کی ٹیم میں شمولیت پر اعتراض کیوں ہے۔ جبکہ میں محمد عامر کی واپسی کی حمایت کرتا رہا ہوں۔ تینوں کا جرم ایک سا تھا۔ اور تینوں کو سزا بھی ملی۔ اب ان سے کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کرنا چاہئے۔ اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں میں آپ سب کے سامنے ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں : مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ میری سوچ غلط تھی۔ محمد عامر کو ٹیم میں واپس نہیں آنا چاہئے تھا۔ ایک سزا یافتہ کھلاڑی کی واپسی کی حمایت کر کے ہم نے کتنوں کا کیرئر داو پر لگادیا؟

mohammad-amir

کھیلوں میں اسپاٹ فکسنگ کوئی نئی بات نہیں۔ کیا کرکٹ، کیا فٹبال، کیا ٹینس جہاں جہاں بھی کھیل میں پیسہ ہے وہاں اسپاٹ کیا میچ فکسنگ ہوتی ہے۔

اشرف طائی کے گھریلو جھگڑے کو جب ٹی وی کی سکرین پر لڑا جانے لگا تو ہمیں علم ہوا کہ اسی کی دہائی میں، گزشتہ صدی میں پاکستان کا یہ مایہ ناز مارشل آرٹس ایکسپرٹ میچ فکس کر چکا ہے۔ فٹ بال میں جو کرپشن ہے وہ آہستہ آہستہ سامنے آ رہی ہے۔ فیفا کی انتظامیہ کو کرپشن کے ناسور نے جکڑا ہوا ہے، میچ فکسنگ ٹینس کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے تو کرکٹ اس سے کیسے بچ سکتی ہے۔ عطاءالرحمان بے چارہ قربانی کا بکرا بنا۔ سلیم ملک کو سزا ملی تو باقیوں کو جرمانہ کرکے چھوڑ دیا گیا۔ سیالکوٹ سٹالینز کے کپتان پر ایک ٹی ٹونٹی میچ میں فکسنگ کا الزام ثابت ہوا تو کیا ہوا؟وہ ابھی بھی کرکٹ کھیل رہا ہے۔ مجھے یقین ہے محمد عامر کی واپسی کے بعد ہر کھلاڑی کے ذہن میں یہ بات ہوگی کہ اگر اس کا ریکارڈ اچھا رہا تو وہ ایک دو "غلطیاں" کر کے، پیسہ کما کر ٹیم میں دوبارہ شمولیت کے لئے عوام کو بے وقوف بنا سکتا ہے۔

میں شائد موضوع سے بھٹک رہا ہوں۔جس جس کھیل میں پیسہ لگا ہوا ہے اس میں کرپشن ہوگی۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کو نظر انداز کرنا بہت مشکل کام ہے۔ کرکٹ کو کرپشن سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔ جب آپ اس کھیل کو گلیمرائز کریں گے تو کرپشن تو ہوگی۔اس کرپشن کی روک تھام چنداں مشکل نہیں۔ آپ نے کرپشن کی روک تھام کرنی ہے تو استثنائی حالات کو نظر انداز کرنا ہوگا۔ آپ کو ایک سخت پالیسی اپنانی ہوگی۔ کوئی بھی کھلاڑی کرکٹ سے بالاتر ہے نہ ہونا چاہئے۔لیکن جس وقت آپ کھلاڑی کو کھیل پر فوقیت دیں گے اس وقت آپ کھیل پر سے اپنا اختیار کھو دیں گے۔

محمد عامر کی کرکٹ کے میدانوں میں واپسی کی حمایت کرکے اب اگر الزام ثابت ہو بھی گیا تو میں شرجیل خان اور خالد لطیف کو کڑی سے کڑی سزا دینے کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ ان کھلاڑیوں نے ایسا کیا قصور کیا ہے کہ ان کو سخت سے سخت سزا دی جاِئے اور کسی منظور نظر کو معاف کر کے ٹیم میں جگہ دی جائے۔

میرا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔