مصباح کی قائدانہ اننگ، ٹور میچ ڈرا

1 1,025

نیوزی لینڈ الیون 384 رنز آل آؤٹ (برینڈن میک کولم 206 رنز) اور 111 رنز چار کھلاڑی آؤٹ (جیمز فرینکلن 30 رنز)، پاکستان 287 رنز آل آؤٹ (مصباح الحق 126٭)

اگر پہلے روز برینڈن میک کولم کی ڈبل سنچری کو دیکھا جائے تو میچ کا آغاز پاکستان کے لیے بہت تباہ کن تھا لیکن دو خوش آئند باتیں جو پاکستان کےلیے ٹیسٹ سیریز میں حوصلہ مند ہوں گی وہ ہیں پاکستان کی پے در پے وکٹیں لینے کی صلاحیت اور دوسرا کپتان مصباح الحق کی بھرپور فارم۔

7 جنوری 2011ء کو پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ٹیسٹ سیریز کے آغاز سے قبل پاکستان کا واحد سہ روزہ ٹور میچ نیوزی لینڈ الیون کے خلاف تھا جس میں برینڈن میک کولم، جیمز فرینکلن، ڈینیل ویٹوری اور ٹم ساؤتھی جیسے کھلاڑی شامل تھے۔

میچ کا آغاز پاکستان خصوصا پاکستانی بالنگ کے لیے بہت مایوس کن ثابت ہوا اور نیوزی لینڈ الیون کے بلے بازوں نے ابتداء ہی سے تیز کھیل کر پاکستانی بالنگ لائن کی دھجیاں بکھیر دیں۔ پہلے دن کی خاص بات برینڈن میک کولم کی ڈبل سنچری تھی جنہوں نے محض 218 گیندوں پر 206 رنزکی شاندار اننگ کھیلی۔ ان کی اننگ میں 5 چھکے اور 20 چوکے بھی شامل تھے۔ البتہ میک انٹوش کی نصف سنچری کے علاوہ کوئی اور بلے باز ان کا بھرپور ساتھ نہ دے سکا تاہم پہلے دن کے اختتام پر نیوزی لینڈ الیون بہت مضبوط پوزیشن میں تھا اور 342 پر اس کی محض 4 وکٹیں ہی گری تھیں۔ اس کارکردگی نے پاکستان کی بالنگ لائن پر بہت سے سوالیہ نشان اٹھے تاہم دوسرے روز بالرز نے گزشتہ روز کا ازالہ کرنے کی کوشش کی اور محض 42 رنز کے اضافے کے ساتھ نیوزی لینڈ الیون کے بقیہ 6 بیٹسمینوں کو ٹھکانے لگا دیا۔ ٹیسٹ میچز کے لیے خصوصی طور پر طلب کیے گئے سہیل تنویر نے 63 رنز دے کر چار جبکہ عمر گل نے 61 رنزدے کر 3 وکٹیں حاصل کیں۔ وہاب ریاض، سعید اجمل اور عبد الرحمن کے ہاتھ ایک، ایک وکٹ لگی۔ تنویر احمد 16 اوورز میں 97 رنز دینے کے باوجود نامراد لوٹے اور کوئی وکٹ حاصل نہ کر سکے۔

پاکستان نے رنز کے پہاڑ تلے دباؤ میں اننگ کا آغاز کیا اور ٹاپ آرڈر اس دباؤ کو نہ سہہ سکا اور محض 39 رنز تک پہنچتے پہنچتے پاکستان اپنے 4 بلے بازوں محمد حفیظ، توفیق عمر، اظہر علی اور یونس خان سے محروم ہو چکا تھا۔ اس صورتحال میں کپتان مصباح الحق نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے میچ کو پاکستان کے حق میں پلٹانے کی کوشش کی جس میں ٹیل اینڈرز نے ان کی بھرپور مدد کی۔ دوسرے روز کے اختتام پر پاکستان 234 رنز پر 8 کھلاڑیوں سے محروم ہو چکا تھا تاہم مصباح الحق 99 رنز کے ساتھ ایک اینڈ پر ڈٹے ہوئے تھے۔

مصباح سنچری اننگ کے دوران (گیٹی امیجز)

تیسرے و آخری روز مصباح کی 126 رنز کی ناقابل شکست قائدانہ اننگ پاکستان کو میچ میں شکست سے بچا گئی لیکن اس مہم میں آخری کے چار بلے بازوں کا کردار بھی اہم رہا جن میں سے عدنان اکمل نے 35، عبد الرحمن نے 20، عمر گل نے 24 اور تنویر احمد نے 25 رنز بنا کر کپتان کا بھرپور ساتھ دیا۔ پاکستان کی آخری وکٹ 287 رنز پر تنویر احمد کی صورت میں گری۔ مصباح الحق 126 رنز پر ناٹ آؤٹ رہے۔

پہلی اننگ میں 97 رنز کی برتری کے ساتھ جب نیوزی لینڈ الیون نے بلے بازی کا آغاز کیا تو پانچویں اوور ہی میں نیوزی لینڈ الیون کی 25 رنز پر دو وکٹیں گر گئیں جب عمر گل نے پہلی ہی گیند پر گزشتہ اننگ کے ہیرو میک کولم کو بولڈ کر دیا اور تیسری گیند پر ولیم سن کو بھی پویلین کی راہ دکھا دی۔ 66 کے مجموعی اسکور پر فرینکلن وہاب ریاض کا نشانہ بنے جبکہ 94 پر پارٹ ٹائم باؤلر یونس خان نے میک انٹوش کو بولڈ کیا۔ 97 پر چار وکٹیں گرنے کے بعد نیوزی لینڈ الیون کی مزید کوئی وکٹ نہ گری اور تیسرے روز کا اختتام 111 رنز چار کھلاڑی آؤٹ پر ہوا یوں میچ بغیر کسی فیصلے کے ختم ہو گیا۔

پاکستان نے میچ سے کچھ مثبت حاصل کیا ہے تو وہیں اس کی خامیاں بھی ابھر کو سامنے آئی ہیں۔ باؤلرز خصوصا تنویر احمد کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھی ہیں جنہوں نے دونوں اننگ میں 6 سے زائد رنز فی اوور دیے اور ایک وکٹ بھی حاصل نہ کر سکے۔ ٹیسٹ مشن کے لیے خصوصی طور پر طلب کے لیے سہیل تنویر کی کارکردگی قابل اطمینان رہی جبکہ عمر گل نے بھی اچھی بالنگ کا مظاہرہ کیا۔ بیٹنگ میں سوائے مصباح الحق کی اننگ کےپاکستان کے کسی فل ٹائم بلے باز نے ذمہ داری کا محسوس نہیں کیا اور اس مرتبہ بھی ٹیل اینڈرز نے میچ کو بچانے کی کوشش کی۔ نیوزی لینڈ کے لیے پریشان کن پہلو زیادہ ہیں۔ اگر پہلی اننگ میں سے میک کولم کی ڈبل سنچری نکال دی جائے تو ٹیم کا مجموعی اسکور محض 178 بنتا ہے جبکہ اس کی آخری 6 وکٹیں محض 42 رنز بنا سکیں۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ 7 سے 11 جنوری تک ہملٹن میں کھیلا جائے گا۔